فاریکس ایکسچینج ریٹ کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ اور اسکی معاشی اہمیت کیا ہے ؟
فاریکس ایکسچینج ریٹ کسی بھی ملک کی معاشی طاقت کے تعین میں افراط زر (Inflation ) اور شرح سود ( Interest rates ) کے بعد اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔ جس سے کسی بھی ملک کی معیشت کی گہرائی ، طاقت اور بین الاقوامی قبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
کرنسی مقامی اور بین الاقوامی دونوں ہی طرح کی ٹریڈ میں خاص طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لئے کاروباری طبقے سے لے کر حکومتی اداروں تک سبھی کی توجہ کا مرکز مختلف کرنسیز کے ایکسچینج ریٹس ہوتے ہیں۔ معاشی دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس پر اس ملک کی کرنسی کے امریکی ڈالر کے ساتھ ایکسچینج ریٹ اثر انداز نہ ہوتا ہو۔ Grocery سے لے کر Utility bills تک روز مرہ زندگی کا معاشی پہیہ کرنسی کے استحکام پر ہی چلتا ہے۔
آج کی جدید دنیا جو کہ Global Village میں تبدیل ہو چکی ہے کا ہر ملک اپنی کرنسی کی شرح تبادلہ کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر بات کریں Corporate Sector کی تو اسکا دارومدار ہی اپنے ملک کی کرنسی کے دیگر ممالک کی کرنسیز کے ساتھ ایکسچینج ریٹ پر ہوتا ہے۔
اکثر ہمارے زہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن پر کسی بھی کرنسی کی دیگر بالخصوص امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر ہم کرنسی کی غیر ملکی شرح تبادلہ کے کسی ملک کی بین الاقوامی تجارت پر اثرات کا جائزہ لیں تو ایک معاشی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اگر آپکے ملک کی کرنسی طاقتور ہے تو آپکی درآمدات (Imports) کی ادائیگیاں کم ہوتی ہیں یعنی درآمدی بل (Imports bill ) کم رہتا ہے جبکہ برآمدات کی مد میں غیر ملکی زر مبادلہ ( (Foreign Currency reservoirs ) کی وصولیاں (Exports bill) زیادہ موصول ہوتی ہیں۔
یہ معاشی دنیا کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ آج دنیا کے کمزور ممالک بالخصوص تیسری دنیا کی ریاستیں غیر ملکی زر مبادلہ کے حصول کے لئے عالمی معاشی اداروں کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، انکی کڑی اور سخت شرائط کو تسلیم کرتے ہیں اور تب جا کر انہیں چند بلیئن ڈالرز کا قرض ملتا ہے۔
آج کی جدید معاشی دنیا میں اگرچہ کئی عالمی کرنسیز امریکی ڈالر سے زیادہ طاقتور ہیں لیکن ان کی قدر کا تعین بھی امریکہ ڈالر کے ساتھ ایکسچینج ویلیو کے بعد ہوتا ہے یعنی بین الاقوامی مالیاتی نظام کا استحکام امریکی ڈالر کے ذخائر پر طے کیا جاتا ہے۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپکے ملک کے مرکزی بینک کے پاس جتنے زیادہ ڈالر ہوں گے آپ کی کرنسی اور معیشت دونوں اتنے ہی طاقتور ہوتے چلے جائیں گے۔
(1) فاریکس ایکسچینج ریٹ ہر ملکوں کے باہمی تعلقات کے اثرات
کرنسی کی شرح تبادلہ کا دارومدار جن عوامل پر ہوتا ہے ان میں سے ایک اہم فیکٹر آپکے ملک کی اس ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات کا ہونا ہے جس کی کرنسی کی قدر کا تعین کیا جا رہا ہو۔ یورپی یونین کے ممالک کے سوئٹزرلینڈ جو کہ براعظم یورپ میں تو واقع ہے لیکن یورپی کمیشن کا حصہ نہیں ہے کے ساتھ انتہائی مثالی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے دونوں علاقوں کی کرنسیز کی ایکسچینج ویلیو عمومی طور پر انتہائی مستحکم رہتی ہے۔
اس طرح فوریکس مارکیٹ میں میں سب سے پہلا فیکٹر یہ ہے کہ آپ جس کرنسی کے ساتھ ڈیل کرنے جا رہے ہیں وہ آپکے ملک کی اوپن مارکیٹ میں کتنی مقدار میں دستیاب ہے۔جتنی زیادہ کرنسی آپکے ملک میں ہے اس کرنسی کی قدر کم ہو گی۔
(2) معیشتوں کے درمیان افراط زر کا فرق۔
جن دو ممالک کے درمیان کرنسیز کی شرح تبادلہ کا تعین کرنا ہو ان دونوں ممالک کی معیشتوں (Economies) کے درمیان افراط زر کا فرق ان کے درمیان کرنسی کے ایکسچینج ریٹس کو طے کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ افراط زر کا حد سے زیادہ بڑھ جانا انتہائی منفی اعشاریہ (Indicator) ہوتا ہے
(3) شرح سود میں فرق کا ہونا۔
یہ بھی ایک سادہ معاشی اصول ہے کہ آپکے ملک کے مرکزی بینک کی معین کردہ شرح سود کرنسی کی شرح تبادلہ میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر ملک کی کرنسی کی قدر گراوٹ کی شکار ہو تو سب سے پہلے مرکزی بینک شرح سود میں ہی اضافہ کرتا ہے تا کہ ملکی کرنسی کی طلب میں اضافہ کر کے اسے مستحکم کیا جائے ۔
شرح سود میں اضافہ عام طور سخت مالیاتی پالیسی (Monetary Policy ) کو ظاہر کرت ہے۔ ایسا عام طور پر اس لئے کیا جاتا ہے کہ شرح سود میں اضافہ غیر ملکی کرنسیز کی خرید پر Cut Rates میں اضافہ کرتا ہے۔
(4) کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ۔
چوتھا اہم ترین نکتہ جس پر آپکے ملک کی کرنسی کی قدر کا دارومدار ہے وہ آپکے ملک کے جاری کھاتوں کا خسارہ (Current Account Deficit) ہے ۔ اسکی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپکی تنخواہ میں آپکے خرچے پورے نہ ہوں تو آپ گھر کے دیگر افراد کی آمدنی کو استعمال کر کے بجٹ پورا کرنے اور روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن اسکا منفی پہلو یہ ہو کہ آپکی آمدنی کا بڑا حصہ ان اندرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملکی معیشت کی بھی ہوتی ہے ۔
Current Accounts کا خسارہ ملکی معیشت پر بیرونی قرضوں سے زیادہ دباؤ ڈالتا ہے جس کے نتیجے میں اندرونی ادائیگیوں کو پورا کرنے کے لئے نئے نوٹ چھاپنا پڑتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے کرنسی کی قدر کو نیچے لایا جاتا ہے۔ اب اسی اصول کو ان دو ملکوں پر لاگو کریں جن کی کرنسیز کی شرح تبادلہ کا تعین ہونا ہے۔ دونوں میں سے جس کے اندرونی قرضے کم ہوں گے وہ غیر ملکی زر مبادلہ کو مستحکم رکھنے کے لئے بیرونی قرض اتنے ہی کم لے گا جس کے نتیجے میں کرنسی اتنی ہی طاقتور ہوتی چلی جائے گی۔
(5) عوامی قرضوں کا حجم
جو ملک اپنی قومی آمدنی کا بڑا حصہ Public Projects کو پورا کرنے پر لگا دیتے ہیں ان کو ملکی ادائیگیوں کے توازن کے لئے اتنا ہی کم اندرونی یا بیرونی قرض لینا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں کہ نجی شعبے ( Private Sector ) کی شیمولیت کے بغیر عوامی منصوبے ہمیشہ ملکی خزانے پر بوجھ ہوتے ہیں۔ جن کی ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ قرضے لینا پڑتے ہیں۔ یہ فائنانسنگ ہمیشہ کرنسی کی قدر کو نیچے لے کر آتی ہے۔ کیونکہ ان کی ادئیگیوں کے حجم بگڑنے سے افراط زر میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔
(6) تجارتی شرائط و ضوابط۔
آخری اہم فیکٹر یہ ہے کہ جن دو ملکوں کی کرنسیوں کی شرح تبادلہ کا تعین کیا جاتا ہے ان کی کرنسیز کی باہمی قدر میں تجارتی تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ یعنی اگر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کو حجم بہت زیادہ ہوتا ہے ان کے درمیان زرمبادلہ کا حصول اتنا ہی آسان ہوتا ہے جس کے نتیجے میں باہمی کرنسیز کی شرح تبادلہ مستحکم رہتی ہے۔
اسکے علاوہ اسکے علاوہ Free Trade دونوں ممالک کے درمیان ترسیل زر کو بھی بڑھاتی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان ادائیگیوں کا توازن جتنا زیادہ بہتر ہو گا اتنی ہی کرنسیز کی قدر مستحکم ہوتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہمیشہ انہی ممالک کا انتخاب کرتے ہیں جن کی معیشت اتنی مضبوط ہو کہ ان کی سرمایہ کاری Risk Assets میں تبدیل نہ ہو جائے اور انکے ممالک کے درمیان سرمائے کی منتقلی آسان ہو۔
اس سلسلے میں سیاسی استحکام (Political Stability) کا کردار حتمی طور پر ان تمام عوامل سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جتنی زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کسی ملک میں آتی ہے اتنی ہے اس ملک کی معیشت اور کرنسی مضبوط ہوتی ہیں۔
اوپر بیان کئے گئے عوامل کے علاوہ بھی کئی فیکٹرز ہیں جن کی بنیاد ہر کرنسی کی قدر مضبوط ہوتی ہے۔ ان میں ملک کے حکومتی اداروں کے نظام کی شفافیت، اینٹی منی لانڈرنگ قوانین اور اس ملک کی Foreign Remittances بھی انتہائی اہمیت کہ حامل ہیں۔ فلپائن تیسری دنیا کے غریب ممالک میں سے ایک ہے۔ تاہم اسکے شہریوں کی طرف سے بھیجی جانیوالی رقومات فلپائن کے GDP کو انتہائی مستحکم رکھے ہوئے ہیں اور اسکی کرنسی پاکستانی روپے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔
اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن کی نذر ہو جانیوالا پیسہ بھی چونکہ مرکزی نظام زر کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے کرنسی ویلیو کو نیچے لانے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں بینکنگ ڈیپازٹس کا کم رجحان بھی کرنسی کی ویلیو میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔