Gaza کا المیہ اور Genocide . تہذیب انسانی کے چہرے پر بدنما داغ.

Israeli aggression is reshaping global conscience and rewriting the definition of Genocide

Gaza کا سانحہ ایک ایسا کھلا زخم بن چکا ہے جو پوری انسانی تاریخ میں ہمیشہ تازہ رہے گا۔ یہ صرف ایک علاقے میں ہونے والی بربادی نہیں بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالنے والا کھلا زخم ہے. جو ہر حساس دل اور باشعور انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ Israeli Defense Forces کے ہاتھوں جو کچھ Gaza میں ہو رہا ہے. وہ کسی فوجی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں بلکہ کھلی Genocide ہے

معصوم بچوں کی لاشیں، ماؤں کی چیخیں اور اجڑے ہوئے گھروں کی تصویریں اب صرف Gaza کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر کا ماتم ہیں۔ دنیا جسے ہم جدید تہذیب کہتے ہیں، وہ اس وقت ایک بے حس تماشائی بنی ہوئی ہے. عالمی طاقتوں کی خاموشی، United Nations کی بے بسی، اور ترقی یافتہ ممالک کے دوہرے رویے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ انسانیت صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود ہو چکی ہے۔

یہ وہ المناک حقیقت ہے جسے نہ صرف تاریخ بلکہ انسانیت کا ضمیر بھی کبھی معاف نہیں کرے گا۔ Israeli Defense Forces کے حملے اب صرف جسموں کو نہیں بلکہ انسانی شعور اور جذبات کو بھی لہو لہان کر رہے ہیں۔ یہ جنگ صرف ایک سرزمین پر نہیں بلکہ ہر انسان کے دل میں جاری ہے، جہاں سوال یہ جنم لے رہا ہے: کیا واقعی ہم ضمیر رکھنے والے انسان ہیں؟

عالمی ضمیر کی بے حسی اور Humanitarian Crisis

غزہ کی پٹی آج کی دنیا کا وہ زخمی گوشہ بن چکی ہے. جہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ مسلسل بمباری، خوراک کی قلت اور طبی امداد کی بندش نے اس خطے کو مکمل Humanitarian Crisis میں دھکیل دیا ہے۔ United Nations کے اجلاس میں جب فلسطینی مندوب نے ہزاروں بچوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے روتے ہوئے کہا: "یہ ناقابل برداشت ہے. کوئی کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے؟” تو یہ فقط ایک بیان نہیں بلکہ پوری مہذب دنیا کے لیے ایک آئینہ تھا۔

بچوں کی چیخیں اور War Crimes کی داستان

کیتھولک رہنما پوپ لیو نے اپنے بیان میں کہا کہ "Gaza کے والدین اپنے معصوم بچوں کی لاشیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں. ان کی دل دہلا دینے والی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں” تو یہ فقط مذہبی عقیدت نہیں. بلکہ ایک انسان دوست موقف تھا۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی نے واضح کر دیا ہے کہ War Crimes پر دوہرا معیار رائج ہے۔

امداد کی ناکہ بندی اور Economic Sanctions

 اقوام متحدہ کے جاری اجلاس میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے بجا طور پر کہا کہ "غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ قدرتی نہیں، انسانوں کی پیدا کردہ تباہی ہے”۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مکمل ناکہ بندی اور Economic Sanctions نے غزہ کے عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ اسکولوں، اسپتالوں، حتیٰ کہ پناہ گاہوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسکول پر حملہ اور Civilian Casualties کی ہولناکی

آج Gaza کے علاقے میں ایک اسکول پر حملے میں 36 معصوم جانیں ضائع ہو گئیں. جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے۔ جبکہ گزشتہ رات  52 فلسطینی شہید ہوئے. جن میں ایک ہی خاندان کے 16 افراد بھی شامل تھے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے. اور Civilian Casualties کو محض اعداد و شمار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گزستہ ڈیڑھ سالوں کے دوران اسرائیلی کاروائیوں میں اب تک 54 ہزار فلسطینی جان بحق ہو چکے ہیں جبکہ  زخمیوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد ہے . Gaza کے تمام مکانات اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے. جبکہ کوئی بھی ہسپتال اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے . تین ماہ سے جاری ناکہ بندی کے باعث Gaza کو دنیا کے سب سے بڑے قحط کا سامنا ہے. اور لاکھوں بچے ہر گذرتے لمحے کے ساتھ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں.

ملائیشیا کا دو ٹوک موقف اور Global Double Standards

Malaysia کے وزیر خارجہ محمد حسن نے انتہائی جرات مندی سے کہا. کہ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم بین الاقوامی برادری کی بے حسی اور Global Double Standards کا کھلا ثبوت ہیں۔ Asean اجلاس میں فلسطینی حقوق کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا. کہ یہ صورت حال بین الاقوامی قانون کی بے توقیری ہے۔

واضح رہے کہ مسلم اکثریتی ملک Malaysia اسوقت تنظیم کا سربراہ ہے. اور Palestinian Cause کے حوالے سے مسلم دنیا کی موثر آواز سمجھا جاتا ہے . کو الالمپور نے ابھی تک نہ تو صیہونی ریاست کو تسلیم کیا اور مستقبل میں بھی ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا. Australia اور New Zealand کے قریب واقع یہ ملک Turkey کے بعد اسلامی دنیا کی دوسری اہم ترین معاشی طاقت ہے.

Gaza کے بچوں کے سامنے صرف موت ہے.

ان المیوں کے بیچ، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال UNICEF کی ترجمان ٹیس انگرام کی باتیں ہر انسان کے دل کو چیر کر رکھ دیتی ہی.، جنہوں نے کہا: "غزہ پٹی میں بچے چاروں طرف سے موت کا سامنا کر رہے ہیں"۔ انہوں نے جرمن نشریاتی ادارے  DW TV سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ Israeli حکام اب UNICEF اور دیگر عالمی تنظیموں سے دوبارہ رابطے کر رہے ہیں. تاکہ Gaza میں محدود امدادی سامان کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک رابطے ہوں گے، لاکھوں معصوم بچوں میں سے کتنوں کی سانسیں رک چکی ہوں گی؟

 ترجمان کے مطابق "یہ مسئلہ امداد کا نہیں بلکہ رسائی کا ہے”۔ غزہ کے باسی خوراک، دوا اور پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں جبکہ گودام امدادی سامان سے بھرے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے رکا ہوا ہے کیونکہ Access to Aid کو اسرائیلی حکومت نے روک رکھا ہے۔

بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جزوی طور پر Aid Resumption کا اعلان کیا ہے۔ لیکن یہ ایک وقتی اور ناکافی اقدام ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ غزہ کی مکمل تباہی کی گئی ہے. اور وہاں کے بچے ہر لمحہ موت سے برسر پیکار ہیں۔

Gaza میں Israeli Defense Forces کی جنگی کارروائیوں نے صرف جانیں ہی نہیں لیں، بلکہ گھروں، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو بھی ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک سال گزرنے کے باوجود غزہ کے عوام اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر نہیں کر پا رہے کیونکہ Reconstruction Blockade ابھی بھی جاری ہے۔

عالمی اخلاقیات کا جنازہ اور Human Civilization کی بے بسی

Turkish President رجب طیب اردوگان نے حقیقی معنوں میں مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ  غزہ کی المناک کہانی دراصل پوری Human Civilization کی ناکامی ہے۔ عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی یافتہ اقوام اس ظلم کے خلاف خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بچے، مائیں، بزرگ، سب ہی اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ انسانیت کے جسم پر غزہ ایک ایسا زخم ہے جو صدیوں تک ناسور کی صورت میں رہے گا۔

یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ سچ بولنے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے۔ Gaza کی گلیوں میں بہتا ہوا خون صرف ایک قوم کا نہیں، یہ انسانیت کی رگوں سے نکلا لہو ہے۔ Genocide کی اس سیاہ رات میں، اگر ہم نے اپنی آواز بلند نہ کی تو کل تاریخ ہمیں ظالموں کے ساتھ کھڑا دکھائے گی۔ Israeli Defense Forces کے ہاتھوں کچلے گئے معصوم چہرے ہمیں پکار رہے ہیں —

انہوں نے کہا یہ انسانی ضمیر کی آخری آواز اور انسانی تہذیب کا امتحان ہے. کہ کیا ہم ان کی پکار سننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر اب بھی خاموشی رہی، تو آنے والے کل میں الفاظ بھی شرمندہ ہوں گے، اور انسانیت بھی۔

اردگان کا کہنا تھا یہ جنگ صرف بارود کی نہیں، یہ جنگ ضمیر کی ہے. اور اس میں ہار صرف اسی کی ہے جو خاموش رہا.

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button