پاکستانی روپے کی قدر مارکیٹ کے مطابق ہونی چاہیئے۔آئی۔ایم۔ایف
عالمی مالیاتی ادارے (IMF) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ سخت حکومتی کنٹرول کی بجائے مارکیٹ کے مطابق کرنسی کی قدر کا حقیقی تعین کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق پاکستانی حکومت کے سخت کنٹرول کی وجہ سے نہ تو ملک میں ڈالر آ رہے ہیں اور نہ ہی ایکسچینجز کی طرف سے امریکی ڈالر (USD) کی اسمگلنگ روکی جا سکی ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ (Foreign Exchange Reserves) کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں اور ضروری خام مال (Raw Material) کی درآمدات (Imports) کے لیے بینکوں کی طرف سے Letter of Credit بھی جاری نہیں کئے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئی۔ایم۔ایف کے پاکستان کیلئے چیف مشن نتھان رپورٹر نے حمعرات کے روز پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے دوران پاکستان میں امریکی ڈالر کی قدر کو کنٹرول کرنے کے لئے عائد پابندیوں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کی پالیسیز پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا اور حکومت پاکستان سے حقیقت پسندانہ انداز اپنانے پر زور دیا۔ چیف مشن نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقوں سے کنٹرول کرنے کی کوششوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ تاہم اسحاق ڈار نےعالمی ادارے کے موقف کو حقیقت کے برعکس قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں کے آئی۔ایم ایف کے اس نقطہ نظر کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ پاکستانی ادارے مصنوعی طریقے سے امریکی ڈالر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ رواں ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق امریکی ڈالر کے ذخائر 6 ارب 10 کروڑ ڈالر کے قریب رہ گئے ہیں۔ جبکہ کمرشل بینکس کے 5 ارب ڈالر کے Foreign Reserves اس کے علاوہ ہیں۔ urdumarkets.com کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق ایمرجنسی کی صورتحال میں SBP اور دیگر کمرشل بینکس کے پاس 3.475 بلیئن ڈالر کی مالیت کے برابر گولڈ (24 قیراط) کے ذخائر بھی موجود ہیں جنہیں کسی بھی وقت عالمی مارکیٹس (Global Markets) میں امریکی ڈالر یا یورو میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار اکتوبر 2022ء کے ہیں جب عالمی مارکیٹس میں گولڈ 1640 ڈالرز فی اونس میں ٹریڈ ہو رہا ہے۔ جبکہ رواں ماہ کے دوران گولڈ کی قدر 18 سو ڈالرز فی اونس سے بڑھ گئی ہے۔ اس طرح حکومت پاکستان کے گولڈ ریزروز کی موجودہ قدر 4 ارب 75 کروڑ امریکی ڈالر سے زائد ہو گئی ہے۔ تاہم ملکی پالیسیز کسی ایک مہینے کے لئے نہیں بنائی جاتیں۔ اس لئے کی موجودہ معاشی صورتحال میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے IMF کا معطل شدہ مالیاتی پروگرام بحال ہونا انتہائی ضروری ہے۔ گذشتہ دنوں حکومت پاکستان کی طرف سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے لئے چین کے انداز میں روزانہ کی بنیاد پر USD/PKR کا ریفرنس ریٹ مقرر کرنا شروع کر دیا تھا جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ علاوہ ازیں بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان 25 سے 30 روپے کا فرق ہے جو کہ کمزور حکومتی کنٹرول کی نشاندہی کر رہا ہے۔ تاہم عالمی مالیاتی ادارہ حکومت پاکستان اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اس پالیسی سے مکمل طور پر متفق ہے کہ منی لانڈرنگ اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمرشل بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کر کے مارکیٹ میں ڈالر کے Flow میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ تاہم چیف مشن کے خیال میں مزید انتظار کرنے کی بجائے SBP کو اس سلسلے میں فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ امریکی ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور بینک ریٹ میں اتنے زیادہ فرق کے نتیجے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ڈالر قانونی ذرائع کی بجائے ہنڈی سے بھجوائے جا رہے ہیں جس سے ملک میں امریکی ڈالر کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے کے نویں جائزے میں تاخیر کی بنیادی وجہ حکومت پاکستان اور چیف مشن پروگرام کے نقطہ نظر میں بہت زیادہ فرق کا ہونا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ اسحاق ڈار کی Foreign Exchange Reserve کو کنٹرول کرنے کے طریقہ کار سے متفق نہیں ہے۔ اور اس کے خیال میں ڈالر کو کنٹرول کرنے کی سخت پالیسیز سرمایہ کاروں اور قرض خواہوں کے اعتماد میں کمی کا باعث بنتا ہے جس کے بدترین اثرات معاشی اعشاریوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسوقت پاکستان کو مارچ 2023ء تک 8.5 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ جن میں سے ممکنہ طور پر متحدہ عرب امارات اور چین اپنے قرضوں کی اقساط کی میعاد میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود بھی پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر کی آئندہ تین ماہ میں ضرورت ہے۔ جو کہ موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آ رہا۔ اسی لئے Debt Swap کرنے کے لئے IMF کا پروگرام اسوقت پاکستان کی ضرورت ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔