روسی تیل اور گیس کی سپلائی پر پابندی کے بعد یورپ کے لئے مشرق وسطی اور افریقی ممالک کی اہمیت

ریسرچ آرٹیکل۔۔ روسی تیل اور گیس کی سپلائی پر پابندی کے بعد یورپ کے لئے مشرق وسطی اور افریقی ممالک کی اہمیت۔۔۔ ۔ یورپ اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف تو یوکرائن جنگ کے یورپ پر معاشی و معاشرتی اثرات ہیں جنہوں نے نہ صرف یوکرینی مہاجرین کا ایک سیلاب یورپی یونین میں داخل کر دیا ہے بلکہ اقتصادی طور پر بھی یورپی معیشت کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ یورپی یونین اسوقت تیل و گیس کے لئے مشرق وسطی کے ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے۔ لیکن کئی عشروں سے روسی تیل اور گیس پر انحصار کرنے والے یورپ کے لئے متبادل سپلائی لائن قائم کرنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے اسکا جواب جرمنی کے ڈوئچے بینک نے اپنی رپورٹ میں دیا ہے کہ صرف جرمنی کو متبادل گیس پائپ لائنیں بنانے اور آپریشنل کرنے میں چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں ۔ اس لئے روسی تیل و گیس کا بائیکاٹ کرنے سے جرمن معیشت کا توانائی کا شعبہ ختم ہو کر رہ جائے گا۔ کیونکہ تیل تو ٹینکرز کے ذریعے بھی سپلائی ہو سکتا ہے لیکن گیس ؟ ۔۔ نیچرل گیس کا متبادل ایل این جی ہے یعنی کہ لیکوئیڈ گیس جو کہ تیل کی طرح مخصوص ٹینکرز کے ذریعے بھی سپلائی ہو سکتی ہے لیکن روسی گیس کی متبادل ایل این جی منگوانے اور پھر ٹرمینلز کے ذریعے لیکوئیڈ سے ری گیس پراسس پر کتنی لاگت آئے گی۔ کیونکہ روس کا زیادہ تر حصہ تو خود براعظم یورپ میں واقع ہے جس سے یورپی یونین کے زمینی بارڈرز ملتے ہیں اس لئے روس سے پائپ لائنوں کے ذریعے گیس اور تیل پورے یورپ میں کم لاگت اور تیزی سے سپلائی ہو جاتے ہیں ۔۔۔ اس لاگت پر تو یورپ کو گیس ملنا مشکل ہے لیکن اس کے ممکنہ متبادل ممالک قطر اور الجزائر ہیں۔ الجزائر تو پہلے ہی سے سمندری راستوں سے ڈنمارک۔ یونان اور فن لینڈ کو ایل این جی سپلائی دیتا ہے جبکہ جرمنی، اٹلی، قبرص، بلغاریہ، سربیا، ہنگری اور پولینڈ کی گیس درآمد کرنے والی کمپنیاں متحدہ عرب امارات اور قطر سے رابطے کر رہی ہیں۔ قطرممکنہ طور پر روسی گیس کا متبادل ہو سکتا ہے کیونکہ ایک تو روس کے بعد سب سے بڑے ذخائر اسی کے پاس ہیں دوسرا قطر دنیا کے کئی ممالک کو مائع گیس پہلے ہی سے سپلائی کر رہا ہے اور اسکے علاوہ تیسرا اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ قطر کے پاس گیس کی بہت بڑی مقدار کو ایل این جی میں تبدیل کرنے اور سپلائی کرنے کا بنیادی ڈھانچہ بہترین آپریشنل حالت میں ہے جس کی وجہ سے 20 لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل کسی یورپی شہر کے سائز کا چھوٹا سا یہ ملک اچانک دنیا کی تمام اقتصادی طاقتوں کے لئے افریقی ملک الجزائر کی طرح ہی بے حد اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ اسوقت پورے یورپ کی کمپنیوں نے قطر اور الجزائر سے معاہدے تو کرنے شروع کر دیئے ہیں لیکن یورپی بندرگاہوں پر ایل این جی لے جانے والے جہازوں کے لئے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اور بندرگاہوں سے مربوط ایل این جی کو واپس قدرتی گیس میں تبدیل کرنے والے ٹرمینلز اور وہاں سے سپلائی لائن یورپی شہروں تک قائم کرنے یعنی لاجسٹکس لائن قائم کرنے میں وقت درکار ہے۔ ۔ لیکن جرمن حکومت کی کابینہ کے ارکان کے مطابق ہمیں ناقابل عمل طریقوں کو عمل کے قابل بنانا ہے۔ ہمیں گیس پر روس کی بلیک میلنگ سے باہر نکلنے کے لئے چاہے ایران سے گیس لینی پڑے ۔ کام کا آغاز کر دینا چاہیئے۔ ایل این جی ٹرمینلز اور ری گیس پلانٹس کی تعمیر کے لئے درکار وقت کی بچت کے لئے یورپی ممالک قطر اور الجزائر سے تیرتے ہوئے یعنی فلوٹنگ ایل این جی ٹرمینلز خرید رہے ہیں۔ جو کہ اس مسئلے کا ممکنہ اور تیز ترین حل ہے۔ اسوقت قطر اپنے بہترین گیس انفراسٹرکچر کے ساتھ یورپ کی معاونت کے لئے تیار ہے اور کئی یورپی ممالک کے ساتھ معاہدوں کو حتمی شکل دے بھی دی ہے جن کا حجم 56 بلیئن ڈالرز سے زائد ہے جبکہ الجزائر کے ساتھ یورپی ممالک کے معاہدے تقریبا 37 بلیئن ڈالرز کے قریب یں ۔ جبکہ جرمن وزیر اقتصادیات کے مطابق 2025 تک یورپ قطر اور الجزائر کے ساتھ 2 کھرب ڈالرز سے زائد کے معاہدے کرے گا۔ کیونکہ حالیہ برسوں میں قطر نے ایل این جی ٹیکنالوجی کو حیرانکن طور پر وسعت دی ہے جس نے قطر کو اس بحرانی صورتحال یں دنیا کے لئے انتہائی اہم بنا دیا ہے۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات سے بھی کئی ممالک رابطے کر رہے ہیں لیکن اس کے پاس اتنی بڑی مقدار میں ایل این جی سپلائی کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے جتنی یورپ کو درکار ہے اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کو ایل این جی پروسیسنگ کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس پر کافی کام ہونا باقی ہے لیکن متحدہ عرب امارات یورپ کی تیل کی ضروریات پوری کر سکتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ صرف تیل کے خاطر خواہ ذخائر موجود ہیں بلکہ اسکی تیل کی لاجسٹکس لائن بھی آپریشنل ہے۔ تیزی سے بدلتی عالمی اقتصادی صورتحال میں الجزائر، قطر اور متحدہ عرب امارات اپنی توانائی برآمدات کو کئی گنا وسعت دے کر معاشی ثمرات سمیٹنے میں مصروف ہیں جسکا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے دو سالوں میں قطر ایل این جی سپلائی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور توانائی کے لئے وہی اہمیت حاصل کر لے گا جو کہ اسوقت تک روس کی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button