توانائی کا بحران: یورپی یونین کا مصر سے شمسی توانائی درآمد کرنے کا منصوبہ

یورپی یونین (European Union ) میں روس سے گیس کی رسد بند ہونے کے بعد سے توانائی کا بحران سنگین شکل اختیار کر گیا ہے۔ یوکرائن جنگ سے پہلے تک یونین کے ممبر ممالک مجموعی طور پر 40 فیصد زرائع توانائی روس سے درآمد کرتے تھے اور اس رسد کا زیادہ تر حصہ 30 جولائی 2022ء تک موصول ہوتا بھی رہا تاہم 30 جولائی کو مرمت کے لئے روس سے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کو گیس فراہم کرنے والی پائپ لائن Nord Stream1 کو بند تین دن کے لئے بند کر دیا گیا تھا جس سے گیس کی سپلائی تاحال بحال نہیں ہو سکی۔ کیونکہ روس کا موقف ہے کہ یورپ اور امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد مرمت کے لئے ضروری مشینری کا حصول آسان نہیں رہا جبکہ یورپی یونین روس پر گیس کی رسد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ روسی گیس کی ترسیل بند ہونے کے بعد یورپی معیشت بالخصوص توانائی کا شعبہ انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ آج عالمی ادارہ برائے توانائی (International Energy Agency ) اور ورلڈ بینک نے بھی خبردار کر دیا ہے کہ سال کے چوتھے معاشی کوارٹر کے دوران یورپی معیشت کساد بازاری (Recession ) کی شکار ہو جائے گی۔ چنانچہ یورپی معاشی مارکیٹس (Financial Markets )، یورو (EUR ) اور صنعتی پیداواری رپورٹس (Industrial Production Reports) غرض خطے کے تمام معاشی اعشاریے ( Financial Indicators ) انتہائی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
ایسے میں یورپی کمیشن (European Commission ) کے ممالک انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بحران کی شدت کو کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی سلسلے جرمنی کے چانسلر شولس اولاف نے سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور ان ممالک سے جمال خاشجگی کے قتل کے بعد سے موجود سرد تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی نژاد سعودی صحافی جمال خاشجگی کو ترکی میں قائم سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ طریقے سے قتل کر کر ان کی لاش فرش میں چھپا دی گئی تھی جس کے بعد ترک حکومت کی تحقیقات کے دوران ان کے قتل کی منصوبہ بندی کے سعودی شاہی محل میں تیار کئے جانے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ترکی، یورپی یونین اور امریکہ کے خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے کیونکہ ترکی اور مغربی ممالک اس قتل کا براہ راست الزام سعودی ولی عہد اور عملی سربراہ مملکت شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کرتے ہیں۔ جبکہ سعودی شاہی خاندان اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔ تاہم حالیہ عرصے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے باوجود ترکی کے صدر طیب اردگان، فرانسیسی صدر مائیکرون اور جرمن چانسلر شولس اولاف کے علاوہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔ اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے حال ہی میں برطانیہ کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔
شولس اولاف کے بعد یونان کے اعلی سطحی وفد نے مصر کا دورہ کیا ہے اور مصر کے Solar Parks میں تیار کردہ صاف ستھری توانائی ( Green Energy ) کی بڑی زیر سمندر کیبلز کی مدد سے یونان اور دیگر یورپی کمیشن کے ممالک کو ترسیل کے ساڑھے تین ہزار میگاواٹ کے منصوبے کو حتمی شکل دے کر آئے ہیں۔ جو کہ بلاشبہ یورپی ممالک کے لئے ایک بہت بڑا ریلیف ہے۔ موجودہ منصوبہ یونان کی 45 فیصد توانائی کی ضروریات کے لئے کافی ہے اور تکمیل کے بعد اسے دوسرے مرحلے میں یونان ہی کے راستے دیگر یورپی ممالک کے لئے منزید تین ہزار میگاواٹ تک وسعت اختیار کرے گا۔ مصر سے یونان تک توانائی کی منتقلی کی لاگت اگرچہ روسی توانائی کے مقابلے میں زیادہ ہو گی تاہم امریکہ سے تیل ق گیس کی درآمد (Import ) کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رہ جائے گی۔ یونان اور مصر کے درمیان سمجھوتے میں توانائی کی بڑی کثیر الاقوامی ( Multinational ) کمپنی کوپی لیزیئس گروپ کے سربراہ لووانس کیری ڈاس سے اہم کردار ادا کیا ہے جن کا ادارہ اس اہم منصوبے کو اگلے دو ماہ میں مکمل بھی کرے گا ۔ مصر اور یونان کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہیں اور دونوں ممالک لیبیا اور شام سمیت عالمی تنازعات میں ترکی کے خلاف اتحادی بھی ہیں۔ اس منصوبے کی تکمیل کی لاگت کا تخمینہ 3.5 بلیئن یورو لگایا گیا ہے جو کہ مصر کے تونائی کے نظام کو 1373 کلو میٹر طویل کیبل کے زریعے براہ راست یورپی توانائی کے انفراسٹرکچر کے ساتھ براہ راست منسلک کرے گا۔ اس کا زیادہ تر حصہ انٹرنیٹ کی کیبلز کی طرح زیر سمندر ہو گا۔ یورپی حکام کو توقع ہے کہ اگلے چند سال میں یہ منصوبہ 10 ہزار میگاواٹ تک وسعت اختیار کر لے گا

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button