ٹرینڈنگ

گرتی ہوئی عالمی معیشت، آخر یہ ہو کیا رہا ہے

( ریسرچ آرٹیکل ) گرتی ہوئی عالمی معیشت، آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔۔ عالمی معاشی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ جرمنی سے لے کر جاپان اور پاکستان سے لے کر نیوزی لینڈ تک تمام فائنانشل مارکیٹس کریش یو رہی ہیں۔ دنیا کی معاشی وحدت کی اکائی ڈالر ہی مستحکم لیکن اس معاشی دنیا کے حکمران جسے ڈالر کہا جاتا ہے کی تمام رعایا جو کہ دنیا کے 196 ملکوں اور 6 براعظموں میں پائی جاتی ہے کا جنازہ نکالنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ڈالر بادشاہ کے سبھی وزراء چاہے ین ہو یا یورو، یوان ہو یا پھر آسٹریلین ڈالر ، امریکی فیڈرل ریزروز کے ریٹس بڑھنے پر زمیں بوس ہو گئے ہیں۔یوکرائن پر روسی حملے کے بعد سے امریکہ، یورپ اور ایشیاء کی بڑی معیشتیں اس وقت ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں۔ ایک طرف مغربی دنیا کی طرف سے روس پر آئے روز نئی پابندیوں کے اعلانات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی سیاست ایک بار پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونیوالی سرد جنگ کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ چینی کیمونسٹ پارٹی کی غیر معمولی میٹنگ کے بعد جاری کئے جانے والے اعلامیے نے عالمی معیشت کے لئے جہاں نئی کساد بازاری کی نوید سنائی وہیں یورپ کو "دوستانہ مشورہ” بھی دے ڈالا کہ روس کے ساتھ اختلافات کو دشمنی میں نہ بدلا جائے۔ ایک طرف چین دنیا کے 38 فیصد رقبے پر محیط روس کو تنہا کرنے کی کوششوں پر کو غیر دانشمندانہ کہہ رہا ہے وہیں دنیا کو یہ احساس بھی دلا رہا ہے کہ اگر روسی صدر ولادی میر پیوٹن ضد پر اتر آئے اور ان کے اندر کا جھگڑالو سیکرٹ ایجنٹ جاگ گیا تو اکیلا روس ہی عالمی معیشت کو زمیں بوس کر سکتا ہے چین کی حکمراں جماعت کی طرف سے روس کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے بعد روسی معاشی کونسل کی سربراہ محترمہ ایلویرا نیبیولینا نے ” روس کے عظیم دوست ملک چین” کا شکریہ بھی ادا کر ڈالا جس کی مدد سے روسی معیشت کو اتنا وقت اور سہارا مل گیا کہ اب ولادی میر پیوٹن اپنے تمام فارن ریزروز چائینیز یونین میں منتقل کر کے فرصت سے کافی کا مگ پکڑے عالمی معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ بظاہر مضبوط نظر آنیوالی امریکی معیشت کساد بازاری کے جن خطرات کا سامنا کر رہی ہے اس کی چند جھلکیاں تو امریکی سنٹرل بینک کی طرف سے ریزروز پر تاریخ میں پہلی بار 25 بیسک پوائنٹس شرح سود میں اضافے کے اعلان اور بےقابو ہوتی ہوئی عالمی بیروزگاری کی شرح اور توانائی کا ایک نیا بحران ۔ ان سب میں سے کوئی بھی حوصلہ افزاء خبر نہیں ہے۔ جرمن ڈوئچے بینک نے اپنی رپورٹ میں عالمی معیشت کے بحران کو دوسری جنگ عظیم سے زیادہ سنگین قرار دیا ہے اور پیشگوئی کی ہے کہ امریکہ و یورپ کو آنے والے دنوں میں کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگرچہ اسوقت شرح سود میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن معاشی بحران کی گہرائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ ڈوئچے بینک کی رپورٹ کے مطابق روس پر بے تحاشہ پابندیوں کے نتیجے میں عالمی معیشت ایک دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اگر عالمی معاشی نظام دوسری جنگ عظیم کے بعد دیکھی جانیوالی عالمی کساد بازاری میں تبدیل ہوا تو دنیا کی اوسط درجے کی معیشتیں دیوالیہ ہو سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ معاشی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں عالمی نظام معیشت شائد ایک لمبے عرصے تک بحران سے نہ نکل سکے۔ جرمن ڈوئچے بینک کے مطابق اگر روس نے یورپ اور عالمی مارکیٹ کو گیس کی سپلائی مکمل طور پر منقطع کر دی تو دنیا توانائی کے ایسے بحران کا شکار ہو جائے گی جس سے کسی بھی ملک کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے ۔ خاص طور پر یورپ جو کہ آج یوکرائن کے ساتھ یکجہتی کے اعلانات کے بعد بند گلی میں کھڑا ہے ۔ اور اس انتظار میں ہے کہ کب ولادی میر پیوٹن ہاتھ بڑھائیں اور یورپی یونین کے آدھے ممبران کسی بچے کی طرح یوکرائن کو روتے چھوڑ کر جھٹ سے کریملن کا ہاتھ پکڑ لیں کیونکہ اسکے اپنے اہم ترین ممبر ممالک اعلان بغاوت کر نے کی تیاری کر رہے ہیں جسکی ہلکی سی جھلک دنیا نے آسٹریا اور ہنگری کے ببانگ دہل اور جرمنی و قبرص کے سینٹرل بینکس گھٹی گھٹی آواز میں اپنی معاشی تباہی کے اعترافات سے دیکھی ہے۔ جرمنی کے مرکزی ڈوئچے بینک نے خبردار کیا ہے کہ مذاکرات کے بغیر ہی پابندیاں عائد کرتے چلے جانا خود یورپی یونین کے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔اطالوی سنٹرل بینک نے بھی یورپی یونین کو مشورہ دیا ہے کہ روس کی طرف سے سخت ردعمل آنے سے پہلے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے اور مصنوعی طریقوں سے بحران کو دبایا نہ جائے ورنہ عالمی معیشت دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بڑے اور سنگین حالات کا سامنا کر سکتی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اومیکرون پر قابو پانے کی ضد میں چین کی اپنے ہی ملک پر سخت پابندیاں چینی معیشت کو بھی اسی بند گلی میں پہنچا سکتی ہیں جس میں یورپ اور امریکہ کی معیشتیں کھڑی ہیں۔ اسوقت یورپ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور چین کی معیشتیں عالمی اقتصادی بحران کے دروازے پر کھڑی ہیں ، دنیا بھر میں افراط زر اور بیروزگاری کی شرح الارمنگ دوہرے ہندسوں میں داخل ہو گئے ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق فیڈ نے امریکی افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت لمبا عرصہ انتظار کیا لیکن بلند شرح سود اور ڈالر کے بلند ریزرو ریٹس سے آجر اور ادارے اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے ملازمین نکال سکتی ہیں جس سے عالمی معیشت مزید سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔ روس کو عالمی معیشت سے نکالنے کے عمل نے ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے ۔ جسے شائد جلد پورا نہ کیا جا سکے ۔ آپ دنیا کے ایک تہائی سے زائد رقبے کو عالمی دنیا سے کیسے کاٹ سکتے ہیں ۔ جرمن اور اٹالیئن سنٹرل بینکس عالمی معاشی بحران کی سنگینی کی طرف جو اشارہ کر رہے ہیں وہ کسی بھی یورپی ادارے کا پہلا حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ گولڈ مین سکس کے مطابق اس سال کے آخر تک بیروزگاری اور افراط زر پینتیس فیصد تک پہنچ کر ایک عفریت کا روپ دھار سکتے ہیں جس کے نتیجے میں عالمی معیشتیں دیوالیہ ہو سکتی ہیں ۔ بینک کے مطابق جنگ، افراط زر، گیس اور کورونا ان چاروں نے مل کر عالمی معیشت کو جن سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے اس سے نمٹنے کے لئے تمام عالمی معاشی طاقتوں اور اداروں کو مل کر کام کرنے ضرورت ہے اور چینی کیمونسٹ پارٹی نے دنیا کا اسی حقیقت کا احساس دلایا ہے کہ ایک تو روس کو جھکانے کے لئے عالمی معیشت کا بھرکس نہ نکالیں اور ان کے مطابق دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ایک ملک اس کساد بازاری سے نہیں نکل سکتا ۔ اس کے لئے تمام طاقتور معیشتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے اور کمزور اکانومی کے حامل ممالک کو سہارا دے کر ساتھ ملانا چاہیئے۔ چینی حکمران پارٹی کے مطابق کسی بھی ملک کی طرف سے انفرادی طور پر بلند شرح سود اور یکطرفہ پابندیاں عالمی معاشی مسائل میں مزید اضافہ کریں گی اور موجودہ صورتحال پوری دنیا کے لئے ایک اقتصادی ریڈ الرٹ ہے جس سے کوئی بھی ملک انفرادی طور پر نہیں نکل سکے گا ۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button