عالمی بینکنگ بحران؛ جس کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوا !

عالمی بینکنگ بحران اس وقت عالمی سرمایہ کاروں کو خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ رسک فیکٹر پھیلانے میں سب سے بڑا کردار سوشل میڈیا نے ادا کیا۔ لیکن اکثر لوگ اب بھی یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی مالیاتی کمزوری کے بغیر کریڈٹ سوئس (Credit Suisse) اور سلیکون ویلی بینک (SVB) چند دنوں میں ڈیفالٹ کیسے کر گئے ؟ اور رواں سال کا بینکنگ کرائسز 2008ء سے کیسے مختلف ہے ؟

اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال میں چھپا ہوا ہے کہ اگر 2008ء کا بینکاری بحران فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک کے زمانے میں آتا تو کیا ہوتا ؟۔ اسی سوال سے ملٹی نیشنل بینکوں کے اتنے کم وقت میں ڈیفالٹ ہونے کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ سلیکون ویلی کے دیوالیہ ہونے کی خبریں اس وقت سامنے آئیں جب فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول اور امریکی سیکرٹری خزانہ جینیٹ ییلین اسی بینک کے لئے بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان مشترکہ پریس کانفرنس میں کر رہے تھے۔

انہوں نے SVB کے ڈیفالٹ پر ردعمل ان الفاظ میں دیا کہ ” محض چند گھنٹوں میں دنیا کا طاقتور ترین بینک کیسے ڈوب سکتا ہے”۔ جی ہاں۔ حقیقی طور پر دیوالیہ ہونے سے کئی گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر ایسا ہو چکا تھا۔ 9 مارچ (SVB دیوالیہ ہونے سے ایک دن قبل) سلیکون ویلی محض 5 گھنٹوں کے دوران اپنے 80 فیصد سرمایہ کار کھو چکا تھا۔ اسکے ڈوبنے کی افواہیں جیروم پاول کے الفاظ کا حوالہ دے کر پھیلائی گئیں۔ جن کے متعلق سربراہ فیڈرل ریزرو خود بھی بے خبر تھے۔

یہ سوشل میڈیا کا وہ تاریک پہلو ہے جس سے پردہ عالمی بینکاری بحران نے اٹھایا ہے۔ جیروم پاول کہتے ہیں کہ کوئی بھی امریکی بینک بنا ان کے دستخط رسمی طور پر دیوالیہ نہیں ہوتا لیکن SVB کے معاملے میں خود انہیں انکے نائب چیئرمین مائیکل بار نے ان الفاظ میں آگاہ کیا کہ ” سوشل میڈیا پر یہ خبر ہے کہ سلیکون ویلی کے فنڈز فیڈرل ریزرو نے منجمند کر کے مرکزی نظام میں منتقل کر دیئے ہیں”

پاول نے امریکی سینیٹ کو بھیجی جانیوالی رپورٹ میں کہا کہ انہوں نے فیڈرل ریزرو کے دوسرے بڑے عہدیدار سے پوچھا کہ کیا مرکزی بینک کی انتظامیہ تبدیل کر دی گئی ہے۔ کیونکہ مرکزی بورڈ اور چیئرمین کی منظوری کے بغیر فنڈز کون منجمند کر سکتا ہے ؟۔ چیئرمین فیڈ کا کہنا ہے کہ اسکے بعد انہوں نے خود چیک کیا۔ سینٹرل سسٹم میں سلیکون ویلی کے فنڈز 90 ارب ڈالرز سے زائد تھے اور سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ تاہم ان افواہوں نے ایک ہیجان برپا کر دیا۔

سرمائے کا انخلاء لیکوئیڈیٹی کے لئے مختص فنڈز سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا۔ امریکی حکومت کوششوں کے باوجود ٹیکنالوجی فنڈنگ بینک کو بچا نہ سکی۔ واضح رہے کہ سلیکون ویلی سے پہلے دو امریکی بینکس اسی انداز میں اپنی کام کرنے کی اہلیت کھو چکے تھے۔

رواں ماہ کے آغاز میں امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے دو کرپٹو فرینڈلی بینک سلور گیٹ اور سگنیچر بینک ڈیپازٹس کی واپسی کے مطالبات پورے نہ کرنے کی وجہ سے دیوالیہ ہوئے۔ اس نے دنیا بھر کی فائنانشل مارکیٹس کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی نظام زر بکھرنے کے خدشے ہر مشتمل افواہیں اتنی سرعت سے پھیلیں کہ امریکہ کے بعد یورپی ملٹی نیشنل بینکس بھی اسکی لپیٹ میں آ گئے۔

اگرچہ مارچ کے آغاز سے ہی وائٹ ہاؤس انتظامیہ اور خود صدر امریکہ جو بائیڈن یہ یقین دلانے میں مصروف تھے کہ ان کا مالیاتی نظام ناقابل تسخیر اور مستحکم ہے۔ لیکن ایسے بیانات کا کھوکھلا پن اسوقت سامنے آ گیا جب یقین دہانیوں سے اگلے ہی روز دوسرے بینکوں کی امداد میں سرگرم بینک خود دیوالیہ ہو گیا

یورپ بینکنگ بحران کی لپیٹ میں۔

گذشتہ ہفتے کے آغاز میں سوئس نیشنل بینک اور حکومت کی سپورٹ کے ساتھ سرمایہ کار بینکنگ کمپنی یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ جسے عرف عام میں UBS کہا جاتا ہے نے لیکوئیڈیٹی کے بحران میں مبتلا کریڈٹ سوئس بینک (Credit Suisse) کا انتظام سنبھال لیا۔ جسے اس نے محض ایک روز قبل امریکہ جاپان، کینیڈا، یورپی یونین اور خود سوئٹزرلینڈ کے مرکزی بینکوں کی گارنٹیز کے ساتھ 3 بلیئن سوئس فرانک میں خریدا تھا۔ واضح رہے کہ یہ بینک اپنی اسٹاک ویلیو صفر ہونے کے بعد لیکوئیڈیٹی کا بہاؤ کنٹرول نہ ہونے اور دنیا کے پانچ طاقتور ممالک کی معاشی سپورٹ کے باوجود سنبھل نہ سکا۔ سوئس بینکاری نظام اپنے مالی استحکام کیلئے دنیا بھر میں بہترین سمجھا جاتا ہے۔

کریڈٹ سوئس کی ناکامی اور یونین بینک کے ساتھ اسکے جبری اشتراک نے یورپ سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو حیران کر دیا ہے کیونکہ سوئس بینکنگ سسٹم اتنا مضبوط ہے کہ 2008ء کے بحران میں بھی اپنی بنیادوں پر مضبوطی سے قائم رہا تھا جبکہ اسوقت دوبئی بطور ریاست دیوالیہ ڈیکلیئر ہو گیا تھا۔ اس سے قبل یکے بعد دیگرے تین امریکی اداروں کے ڈیفالٹ سے روس اور چین کے اشتراک سے بننے والے نئے عالمی نظام کی افواہوں میں شدت آ گئی۔

شائد ایسا اس لئے ہے کہ دونوں ممالک دنیا کا 50 فیصد سے زائد علاقہ گھیرے ہوئے ہیں اور آج دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ آخر یوکرائن پر ہونیوالے روسی حملے کا ہی نتیجہ ہے۔ ان حالات میں سان فرانسسکو کے فرسٹ ریپبلک بینک کا لیکوئیڈیٹی کرائسز امریکی معاشی نظام کی ناکامی ظاہر کر رہا ہے جس کے لئے امریکی سیکرٹری برائے خزانہ جینیٹ ییلین معاشی اداروں سے اپیل کر رہی ہیں ۔ درحقیقت دیوالیہ ہونیوالے تمام امریکی بینک مل کر بھی کریڈٹ سوئس کے سائز کے برابر نہیں ہیں۔ جو دنیا کے 30 بڑے معاشی اداروں میں سے ایک ہے۔

کریڈٹ سوئس کے مسائل بہت پہلے سے چلے آ رہے تھے۔ گذشتہ سال بھی رسک مینیجمنٹ اور لیکوئیڈیٹی کے مسائل سے یہ ادارہ سنگین مسائل سے دوچار ہو گیا تھا تاہم اسوقت سعودی نیشنل بینک نے اسکے اکثریتی شیئرز خرید لئے تھے جس سے اسے مستحکم ہونے میں مدد ملی لیکن ڈیفالٹ سے چند روز قبل سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کے بعد سعودی بینک نے مزید مالی معاونت سے انکار کرتے ہوئے اپنے حصص 10 فیصد تک محدود کر دیئے تھے۔

سوئس نیشنل بینک نے اسکے لئے ہنگامی طور پر 50 ارب فرانک کے فنڈز جاری کئے لیکن افواہوں کی شدت کو قابو نہ کیا جا سکا اور عالمی بینکوں کا بادشاہ کہلانے والا سوئس کریڈٹ بینک روبہ زوال ہوا۔ معاشی ماہرین کے خیال میں کریڈٹ سوئس ڈیفالٹ نے سوئٹزرلینڈ کی مالیاتی ساکھ کو اتنا نقصان پہنچایا ہے جس کا ازالہ شائد آئندہ کئی عشروں میں بھی نہ کیا جا سکے۔ رواں ماہ کے دوران سوئس بینکوں سے 160 ارب فرانک سے زائد سرمائے کا اخراج دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح 1856ء میں قائم ہونیوالے 167 سال قدیم Credit Suisse بینک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی بینکنگ بھی ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔

کریڈٹ سوئس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ جدید دنیا کا معاشی نظام ۔ اس سے قبل کئی بار بھی کرائسز آئے تاہم اس نے سینٹرل بینک کی سپورٹ کے بغیر اپنی معاشی اسٹرینتھ کے زور پر حالات کا مقابلہ کیا۔ چاہے عالمی جنگوں کے بعد آنیوالی کساد بازاری ہو یا پھر 2008 کا معاشی بحران لیکن یہ حیران کن ہے کہ آخر کار یہ بینک محض 3 ارب فرانک (3.25 ارب امریکی ڈالرز) میں فروخت ہو گیا۔ وہ بھی صرف اس لئے کہ افواہوں کا تدارک نہ کیا جا سکتا۔

Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود کہتے ہیں کہ معاشی دنیا خبروں کی بنیاد پر اتار چڑھاؤ کی شکار ہوتی ہے۔ لیکن تصدیق کے بغیر اطلاعات کا بہاؤ چند گھنٹوں میں عالمی اداروں کو کیسے نیلام کر سکتا ہے اسکا اندازہ حالیہ بینکنگ بحران سے ہوا ہے ۔

"سوشل میڈیا آج ہماری زندگیوں کا اہم ترین حصہ ہے لیکن اپنے فوائد کے ساتھ اسکے تاریک پہلو بھی ہیں۔ جن میں سے سب سے اہم کسی بھی خبر کی تصدیقی میکانزم کی عدم موجودگی ہے۔ 2008ء کے بینکنگ بحران پر اسی لئے قابو پا لیا گیا تھا کہ اسوقت سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا، بینکنگ انڈسٹری افواہوں کے نتیجے میں اسٹاکس ویلیو نہیں کھو رہی تھی جسکے دباؤ سے ڈیپازٹس کی واپسی کے مطالبے بھی سامنے نہیں آئے تھے تاہم 15 سال قبل معاشی ادارے حقیقی طور پر سرمائے کی کمی کے شکار ہوئے تھے۔ لیکن 2023ء میں مستحکم ترین لیکوئیڈیٹی فنڈز کے حامل ادارے محض سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھ گئے”

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button