پاکستان سنگین معاشی بحران کی لپیٹ میں
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام معاشی اعشاریوں (Financial Indicators) پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (PTI) کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے امکان کے پیش نظر پاکستانی فائنانشل مارکیٹس میں زیادہ تر سرمایہ کار سائیڈ لائن نظر آ رہے ہیں اور مارکیٹ میں سرمائے اور شیئر والیوم میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کی معاشی صورتحال بھی ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ انتہائی سنگین رخ اختیار کر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی Capital Market سے بڑے پیمانے پر سرمائے کا انخلاء جاری ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کی طرف سے پاکستان کے ساتھ پروگرام کو جاری رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آیا جس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہوں میں شدت آ گئی ہے۔ ایسے میں اگر ہنگامی بنیادوں پر پاکستان کے حوالے سے کوئی واضح اعلان سامنے نہ آیا تو ملک کا مالیاتی نظام بھی بکھر سکتا ہے۔ ملک کے مرکزی بینک State Bank of Pakistan کی طرف سے جاری کئے جانیوالے بیان کے مطابق اسوقت زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب 60 کروڑ ڈالرز کے قریب ہیں جو کہ بمشکل ایک ماہ کے درآمدی بل (Import Bill) کے برابر ہے جبکہ فروری 2023ء تک پاکستان کو 7 ارب ڈالرز سے زائد کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
گذشتہ روز فارماسیوٹیکل ایسوسی ایشن کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں ادویات کی پیداوار کے لئے استعمال ہونیوالے خام مال کی انتہائی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ خام مال درآمد (Import) کیا جاتا ہے اور غیر ملکی زر مبادلہ کی کمی کے باعث تمام بی بینکس سامان درآمد کرنے کے لئے Letter of Credit جاری نہیں کر رہے جس سے ہر قسم کی درآمدات عملی طور پر معطل ہو چکی ہیں۔ فرٹیلائزر اور پولٹری میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ اس صورتحال میں سرمایہ کاروں کے اعتماد میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے گریز کر رہے ہیں۔ عالمی اداروں کہ طرف سے معاشی امداد محض بیانات تک محدود ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان ٹیکنیکی طور دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک عالمی ادارے اور قرض خواہان کی طرف سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا۔
ملک کی سیاسی جماعتوں کی معاشی بحران پر کوئی بھی توجہ نہیں ہے اور ملکی معیشت سیاسی مفادات کہ بھینٹ چڑھائی جا رہی ہے۔ پاکستانی مالیاتی اداروں کی تمام تر امیدوں کا مرکز اسوقت چین اور سعودی عرب ہیں تاہم IMF پروگرام کی بحالی کے بغیر ان کی طرف سے بھی معاشی امداد کی توقع نہیں ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے کا پروگرام ایک طرح سے قرض خواہوں کے لئے معاشی تحفظ کی علامت ہوتا ہے نیز IMF اپنے پروگرام میں شامل ممالک کو دیوالیہ نہیں ہونے اس طرح یہ دیگر عالمی اداروں اور دوست ممالک کے لئے ایک اشارہ ہوتا ہے کہ اس ملک کو قرض جاری کر دیا جائے۔ پاکستان کے معاشی اعشاریوں (Financial Indicators) میں پائی جانیوالی بے یقینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران سرمایہ کاری کے حجم (Capitalization) 25 فیصد سکڑ کر محض 52 ارب روپے پر آ گئی ہے جبکہ ٹیلی نار سمیت کئی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز اپنے اثاثے فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ممکنہ طور پر بنگلہ دیش منتقل ہونے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ اسوقت پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو معاشی فرنٹ پر متفق ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کے دور میں کسی بھی ملک کی بقاء عسکری کی بجائے معاشی استحکام پر منحصر ہے۔ تین براعظموں کے برابر سوویت یونین کا زوال معاشی بنیادوں پر ہوا تھا نہ کہ کسی فوجی کاروائی سے۔ آج اگر ملک کی سیاسی قیادت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پاکستان کا معاشی نظام خدانخواستہ Collapse کر سکتا ہے ۔ فیصلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس شائد زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔