ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک: پاکستان کو درپیش چیلنجز پر رپورٹ جاری
ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کو Factsheet on Pakistan کا نام دیا گیا ہے۔ جاری کردہ ڈیٹا میں کورونا کی عالمی وباء، 2022ء میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی ، کمزور معاشی ڈھانچے، اور پروجیکٹ ڈویلپمنٹ میں سست روی اور قدرتی آفات کو پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے اہم نکات
بینک نے Factsheet on Pakistan میں کہا ہے کہ یوں تو پاکستانی معیشت کی جڑیں کورونا کی عالمی وباء کے دوران مناسب فنڈنگ نہ ہونے سے کھوکھلی ہونا شروع ہوئیں۔ تاہم سنگین حالات اسوقت پیدا ہوئے جب گذشتہ سال دورہ روس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگرچہ سابقہ حکومت معاشی چیلنجز کا موثر طریقے سے مقابلہ نہیں کر پائی تاہم اس کا تعلق عالمی سطح پر پائی جانیوالی کساد بازاری (Recession) کی اس لہر سے تھا جو کہ عالمی وباء کے دوران نظام رسد کا توازن بگڑنے سے پیدا ہوئی۔ علاوہ ازیں سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے سے معاشی منظر نامہ منفی ہوتا چلا گیا۔ جس سے ملک میں سرمایہ کاری کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک سے 100 سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے غیر واضح معاشی ڈائریکشن کے باعث اپنا سرمایہ بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور دوبئی منتقل کر دیا جس کی بڑی مثال ٹیلی نار پاکستان ہے۔
ناروے کی یہ ملٹی نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن طویل عرصے سے ناروے اور دیگر یورپی ممالک کے خلاف ابھارنے جانیوالے عوامی جذبات کا مقابلہ کر رہی تھی۔ جس کے بعد اس نے وطین ٹیلیکام کو اثاثے فروخت کرتے ہوئے بنگلہ دیش منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق نامساعد حالات کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل کی صنعت ختم ہو کر رہ گئی۔ ملک کو 10 ارب ڈالرز سالانہ ریونیو کما کر دینے والے اس شعبے سے 70 لاکھ افراد کا روزگار جڑا ہوا تھا۔ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد برصغیر کے دو بڑے ممالک کے کشیدہ تعلقات میں ایک دوسرے کے خلاف لگائی جانیوالی پابندیوں میں تجارتی تعلقات معطل کیا جانا بھی شامل تھا۔ جس نے پاکستانی ٹیکسٹائل کمپوزیٹ سیکٹر کو تالے لگا دیئے اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
واضح رہے کہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والا دھاگہ اور خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ خام مال کی سپلائی بند ہونے سے زیادہ تر صنعتی یونٹس بنگلہ دیش منتقل ہوئے۔
قدرتی آفات اور اسٹرکچرل مسائل
ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان کہ گلوبل وارمنگ سے متاثر ہونیوالے ممالک میں سرفہرست ہے۔ حالانکہ آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والی گیسز کے اخراج میں اسکا اپنا حصہ محض 1 فیصد سے بھی کم ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں پگھلنے والے گلیشیئرز سے آنیوالے سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جس کا ازالہ کئے بغیر اسکا معاشی اعتبار سے دوبارہ پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے۔ عالمی ماحولیاتی اداروں کی سفارشات کے باوجود پاکستان کو اس مد میں مناسب امداد جاری نہیں کی گئی۔ جس سے اسکا کمزور معاشی ڈھانچہ ڈوبنے کے بالکل قریب آ گیا ہے۔
ایشیائی ادارے کے مطابق کرپشن اور سست روی جیسے عوامل پاکستان کی معاشی بحالی کے ذمہ دار ہے۔ مذہبی انتہاء پسندی اور کم شرح خواندگی کے باعث ٹیکسز اور دیگر ریاستی فرائض کی ادائیگی کو اہم نہیں سمجھا جاتا نیز اس سلسلے میں حکومتی سطح پر بھرپور پروگرام کی عدم موجودگی بھی کم ریونیو کولیکشن کی ذمہ دار ہے۔ جس سے بلیک مارکیٹنگ اور منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان: جنوبی ایشیاء کی کمزور ترین معیشت
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016ء میں دنیا کی پچیسویں بڑی معیشت اسوقت دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ تاہم بدقسمتی سے اسوقت بھی معاشی ڈھانچے کو ٹیکنیکی اور مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ رپورٹ مرتب کرنیوالی کمیٹی نے اپنی سفارشات میں پاکستان کیلئے ہنگامی طور پر 3 ارب ڈالر امداد کی سفارش کی ہے تا کہ اس کے مالیاتی نظام کو بکھرنے سے بچایا جا سکے۔ یاد رہے کہ حالیہ عرصے کے دوران ادارہ پاکستان کو 50 کروڑ ڈالرز کی معاشی امداد دے چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پاکستانی شرح نمو جنوبی ایشیاء میں دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کے بعد کمزور ترین ہے۔ اسکی GDP Ratio رواں سال 0.6 فیصد رہی ہے۔ اسکے مقابلے میں مالدیپ 7.15 فیصد، بھارت 6.4 بنگلہ دیش 6.3 فیصد کے ساتھ نمایاں ترین ممالک ہیں۔ جبکہ بھوٹان 4.3 اور نیپال 4.1 فیصد کے ساتھ پاکستان سے زیادہ مستحکم GDP کے مالک ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے نیچے سری لنکا منفی 3 افغانستان بغیر کسی رینکنگ کے موجود ہے۔ ادارے کے مطابق گذشتہ دو سال سے مالدیپ اور بھوٹان نے پاکستان سے 10 گنا بہتر گروتھ ریٹ حاصل کیا جو کہ محض سیاحت کے شعبے کی پائیدار ترقی سے ممکن ہوا ہے۔
اس عرصے میں جنوبی ایشیاء کا یہ سب سے چھوٹا ملک 250 ارب ڈالرز کی معیشت بن چکا ہے۔ جبکہ اسے پاکستان سے زیادہ ماحولیاتی چیلنجز اور جزائر کے صفحہ ہستی سے مٹنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ جس سے اسکی بقاء بھی شدید خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ ادھر شرح نمو کے لحاظ سے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دینے والا بھوٹان صرف سیاحت کے شعبے میں شفافیت اور ترقی سے 150 بلیئن ڈالر حاصل کر رہا ہے۔ جو کہ پاکستان جیسے ممالک کیلئے ایک بڑی مثال ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔