Pakistani CPI Report: افراط زر 52 سال کی بلند ترین سطح پر

Pakistani CPI Report جاری کر دی گئی ہے۔ محکمہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2023ء میں افراط زر 52 سال کی بلند ترین سطح 35.37 فیصد سالانہ کی سطح پر آ گئی ہے۔ ماہرین معاشیات نے تصدیق کی ہے کہ دراصل یہ جولائی 1965ء کے بعد 58 سال میں پرائس انڈیکس کی بلند ترین سطح ہے۔ تاہم افراط زر کا باقاعدہ ریکارڈ 1971ء سے دستیاب ہونے کے باعث اسی وقت سے شمار کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دیہاتی علاقوں میں 32.97 اور شہروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 38.88 فیصد اضافہ ہوا۔

مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ؟

رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹ میں مہنگائی کی شرح 54.94 فیصد رہی جبکہ مشروبات اور ٹوبیکو پروڈکٹس میں 47.15, تفریح و ثقافت 50.59, خراب ہونیوالی اشیاء 51.81, خراب نہ ہونیوالی اشیاء 46.44, ریسٹورینٹ اینڈ ہوٹلز 38.99، ہیلتھ سیکٹر 18، جبکہ متفرق شعبوں کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔ اس طرح افراط زر نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔

افراط زر کے منفی اثرات

یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں جاری کئے گئے ہیں جب گذشتہ روز کراچی میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچنے سے عورتوں اور بچوں سمیت کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس واقعے کی وجہ سے ملک بھر میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی رمضان المبارک کے روزے رکھے جا رہے ہیں اور کئی عشروں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس مہینے میں روز مرہ اشیاء پر کوئی سبسڈی نہیں دی گئی۔ حکومت نے ملک بھر میں غریب اور کم آمدنی والے طبقے کیلئے مفت راشن کی تقسیم کے لئے مراکز کھول رکھے ہیں۔

عوام مہنگائی سے اتنے پریشان ہیں کہ ان مراکز میں راشن لوٹنے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ محکمہ شماریات کے ایک ترجمان نے کہا کہ افراط زر کی یہ شرح 1970ء میں ماہانہ ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ شروع کئے جانے کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی کی سطح ہے۔ پاکستانی معیشت کو اسوقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روپے (USDPKR) کی قدر میں کمی کے سبب شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر محض 4 ہفتوں کے درآمدی بلز کے لئے ہی باقی بچے ہیں۔

یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستانی معیشت کو 2022ء میں بھی تباہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ ایسے میں حکومت عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور دوست خلیجی ممالک سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنی کی کوشش کر رہی ہے لیکن کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے باوجود مسلسل نئے مطالبات سامنے آنے سے معاہدہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ گذشتہ روز وزارت خزانہ نے پیشگوئی کی تھی کہ مارچ میں افراط زر کی سطح انتہائی بلند رہے گی۔

رپورٹ کے مطابق اشیائے ضروریہ کی طلب و رسد میں فرق، شرح مبادلہ میں کمی اور ذرائع توانائی کی قیمتوں میں اضافے کو صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button