شرح سود میں ممکنہ اضافہ اور پاکستان کا مالیاتی بحران
شرح سود میں اضافے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کمیٹی کا اجلاس 2 مارچ کو طلب کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ مقررہ تاریخ سے دو ہفتے قبل طلب کی گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کئے گئے پریس ریلیز کے مطابق پالیسی ریٹس پر نظر ثانی کیلئے خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ جو کہ 16 مارچ کی بجائے 2 مارچ کو منعقد کیا جائے گا۔
عالمی مالیاتی ادارہ اور پالیسی ریٹس
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی طرف سے پاکستان کیلئے معاشی پروگرام کی بحالی اور نویں جائزے کی تکمیل کیلئے کڑی شرائط رکھی گئی ہیں۔ جن میں ٹیکس کی شرح بڑھانا، وسیع پیمانے پر دی گئی سبسڈیز کا خاتمہ اور ڈالر کیپ کے ہٹائے جانے کے علاوہ شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسوقت ملک میں افراط زر (Inflation) کی شرح 35 فیصد جبکہ شرح سود (Interest rate) 17 فیصد پر ہے۔ ملک میں انتہائی سخت مانیٹری پالیسی نافذ ہونے کے باوجود افراط زر بھی ریکارڈ سطح کو چھو رہی ہے جو کہ اسوقت دنیا کے صرف چند ممالک میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ افراط زر کو نیچے لانا چاہتا ہے۔ اس کے لئے حال ہی میں ورچوول مذاکرات کے دوران شرح سود میں کم از کم 200 بنیادی پوائنٹس کے اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔ جسے پورا کرنے کے لئے یہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ اس اضافے سے پالیسی ریٹس تاریخ میں پہلی بار 19 فیصد کی سطح پر پہنچ جائیں گے۔
پاکستان کے لئے قرض پروگرام کی بحالی کیوں ضروری ہے ؟
پاکستان اسوقت بدترین مالی بحران کا شکار ہے۔ ڈالر کے ذخائر 1999ء کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار 3 ارب ڈالرز کی سطح پر آ گئے جو کہ بمشکل 2 ہفتوں کے درآمدی بلز کیلئے ہی کافی ہیں۔ غیر ملکی زرمبادلہ خطرناک سطح پر آنے سے معاشی اعشاریے (Financial Indicators) انتہائی منفی منظرنامہ پیش کر رہے ہیں جس سے پہلی بار پاکستان کے بطور ریاست دیوالیہ ہونے کی خبریں پھیل رہی ہیں۔
دوست ممالک کے امدادی پیکیجز
چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پاکستان کے وہ دوست ممالک ہیں جو کہ ہر مشکل وقت میں اسکی مدد کو پہنچتے رہے ہیں۔ تاہم اب کی بار معاملہ خاصا مختلف ہے۔ مسلسل امداد کے بعد اب ان ممالک نے بھی پاکستان کے مالیاتی نظام پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اپنے بیل آؤٹ پیکیجز کو IMF کے گرین سگنل سے مشروط کر دیا ہے۔ جس کے بعد ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے عالمی ادارے کا پروگرام پاکستان کیلئے معاشی اعتبار سے لائف لائن کی حثیت اختیار کر گیا ہے۔ کیونکہ G-20 اور پیرس کلب کے ساتھ ماضی کی تلخیوں کے باعث پاکستان معاشی امداد کیلئے رابطہ نہیں کر رہا۔ Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے بیل آؤٹ پیکیجز کی درخواستیں صرف چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ تا کہ کسی وجہ سے اگر ضرورت پڑے تو قرضوں کی ادائیگیاں بغیر ڈیفالٹ کئے موخر کروائی جا سکیں۔
کیا مستقبل میں بھی شرح سود میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ؟
35 فیصد افراط زر اور 19 فیصد شرح سود دونوں ہی غیر معمولی حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ تاہم حسن مقصود کے خیال میں یہ سلسلہ یہاں پر ہی نہیں رکے گا۔ بلکہ غیر یقینی صورتحال کے باعث مستقبل قریب میں افراط زر کے نیچے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بلکہ جنوری 2023ء کے کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) کا تخمینہ بھی اس بار 30 فیصد ہے جو کہ معاشی بحران کی شدت کو ظاہر کر رہا ہے۔ اس لئے معاشی سال کے دوسرے کوارٹر تک پالیسی ریٹس میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔