انڈیا کا اقدام یا معاہدے کی خلاف ورزی؟ Indus Waters Treaty کے معاشی اثرات.

As tensions rise over the issue, Pakistan braces for the economic consequences of potential water shortages

جنوبی ایشیاء کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان Indus Waters Treaty نہ صرف ایک آبی معاہدہ ہے. بلکہ یہ دونوں معیشتوں کے درمیان ایک نازک توازن اور Water Security کا ضامن بھی رہا ہے۔ جب انڈیا نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تو یہ صرف ایک سفارتی اقدام نہیں تھا. بلکہ اس کے معاشی اثرات کی گونج Pakistan Stock Exchange (PSX) سے لے کر چھوٹے کسانوں کی زمینوں تک سنائی دی۔

پاکستان کی معیشت کا دل زرعی شعبہ ہے. جو براہِ راست دریائی پانی پر انحصار کرتا ہے۔ اس معاہدے کی معطلی کا مطلب نہ صرف پانی کی قلت ہے بلکہ اس کے اثرات Fertilizer Sector, Agro-Food Industries, اور خاص طور پر Fauji Foods جیسے اداروں کی Supply Chains, Production Capacities، اور آخرکار Financial Results پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں سرمایہ کاروں کا اعتماد لرز سکتا ہے، مارکیٹ کی Volatility میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور ایک وسیع تر Water-Linked Economic Crisis جنم لے سکتا ہے. جو نہ صرف ملکی معیشت بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔

پاکستان کے لیے Water Crisis کی شدت میں ممکنہ اضافہ

معاہدے کے تحت پاکستان کو دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر 80 فیصد پانی کا حق حاصل ہے۔ انڈیا کی جانب سے Data Sharing Suspension اور سالانہ اجلاسوں سے انکار کے باوجود، پاکستان نے اب تک مقامی اندازوں اور Hydrological Instruments کی مدد سے صورتحال کا اندازہ لگایا ہے۔ م

گر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات طویل مدتی تحفظ فراہم کر سکتے ہیں؟ پانی کی قلت سے نہ صرف زراعت متاثر ہوگی. بلکہ GDP Growth, Food Security, اور Export Revenue بھی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پانی کی کمی، Fertilizer Demand میں کمی اور Agri-Based Industries کی کارکردگی پر براہ راست اثر ڈال سکتی ہے۔

انڈیا کی Hydropolitics: سیاسی اقدام یا عملی خطرہ؟

ڈاکٹر شعیب اور شیراز میمن جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس فی الحال نہ ہی ایسے Storage Reservoirs موجود ہیں اور نہ ہی ٹیکنیکل صلاحیت کہ وہ پاکستان کا پانی مکمل روک سکے۔ تاہم، خدشہ ہے کہ اگر یہ تعطل جاری رہا، تو انڈیا خاموشی سے Dam Designs میں تبدیلی کر کے پاکستان کے Water Flow پر اثر ڈال سکتا ہے. جس سے Agricultural Output اور Rural Livelihoods متاثر ہو سکتی ہیں۔

عالمی قوانین اور Legal Framework کی حدود

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کے مطابق انڈیا یکطرفہ طور پر Indus Waters Treaty کو معطل کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتا۔ یہ معاہدہ World Bank Arbitration کے تحت ہے اور Water Security میں کسی بھی تبدیلی کے لیے دونوں ممالک کی باہمی رضا مندی ضروری ہے۔ پ

اکستان کے پاس یہ معاملہ International Court of Justice میں اٹھانے کا مکمل حق ہے۔ اگر انڈیا یکطرفہ اقدام کرتا ہے تو یہ نہ صرف قانونی طور پر ناقابل قبول ہوگا بلکہ اس کا اثر عالمی Investor Confidence، Geopolitical Stability، اور Foreign Policy Risks پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے دونوں ممالک کی Cross-Border Trade Relations کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

معاہدے کی معطلی کے معاشی اثرات: ایک Financial Time Bomb

پاکستان کی Agriculture Economy کا دار و مدار انہی مغربی دریاؤں پر ہے۔ اگر پانی کے بہاؤ  یا Water Security میں کمی واقع ہوئی، تو یہ نہ صرف Crop Yields کو متاثر کرے گا بلکہ Agri-Exports اور Food Prices پر بھی شدید دباؤ آئے گا۔ ساتھ ہی، انڈیا کا یہ قدم پاکستان کی Hydropower Generation کو بھی متاثر کر سکتا ہے. جو پہلے ہی توانائی بحران سے دوچار ہے۔

بھارت کا Strategic Water Weaponization: ماضی کی جھلک

یہ پہلا موقع نہیں جب انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو بطور Geopolitical Weapon استعمال کیا ہو۔ 2016، 2019 اور 2024 میں بھی اسی نوعیت کی دھمکیاں دی گئیں، جہاں Water Diplomacy کو شدت پسندی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

چین اور بنگلہ دیش: انڈیا کے لیے ممکنہ Hydro Backlash

اگر انڈیا نے یکطرفہ اقدامات کیے. تو اس کے Transboundary Water Relations نہ صرف پاکستان بلکہ بنگلہ دیش اور چین کے ساتھ بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر چین، جو Brahmaputra River کا ماخذ ہے. انڈیا کی ایسی کسی بھی پالیسی کا سخت نوٹس لے سکتا ہے. جس سے پورے خطے میں Hydro-Tensions جنم لے سکتے ہیں۔

کیا معاہدے کی معطلی خطے میں کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے؟

سندھ طاس معاہدہ اب تک پاک-انڈیا تعلقات میں ایک قدرِ مستقل اور امن کا نشان سمجھا جاتا رہا ہے. حتیٰ کہ جنگوں کے دوران بھی اس پر عملدرآمد جاری رہا۔ تاہم حالیہ معطلی نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھا سکتی ہے. بلکہ یہ Hydro-Political Conflicts کو جنم دے سکتی ہے۔ چین، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی انڈیا کی اس پالیسی کو غور سے دیکھ رہے ہیں. کیونکہ ان کا انڈیا کے ساتھ بھی Water Sharing Agreements موجود ہیں۔ اگر انڈیا نے یہ روش جاری رکھی تو اس کے خلاف علاقائی سطح پر ردِ عمل آ سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی اس صورتحال میں سفارتی حکمت عملی کو تیز کرنا ہو گا. تاکہ عالمی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ پانی کے معاملے پر سیاست کھیلنا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی Water Security کے لیے خطرہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اندرونِ ملک Water Conservation Projects پر سرمایہ کاری بڑھائے، Dams اور Reservoirs کی تعمیر کے لیے جامع حکمتِ عملی اپنائے. تاکہ اگر بھارت مستقبل میں مزید سخت اقدامات کرے. تو پاکستان خودکفیل ہو کر ان کا سامنا کر سکے۔ اس کے علاوہ Public Awareness Campaigns اور Irrigation Efficiency Programs کا آغاز بھی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کو پانی کے تحفظ اور دانشمندانہ استعمال کے لیے تیار کیا جا سکے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button