United States اور China کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی: نئے Tariffs سے Trade War میں شدت
New Policy reshapes trade dynamics and triggers global Economic Concerns

دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان جاری کشیدگی سنگین انداز اختیار کر چکی ہے۔ United States اور China کے درمیان جاری Trade War نے اُس وقت ایک نیا موڑ لیا جب White House نے اعلان کیا کہ منگل کی رات 12:01 بجے سے چند چینی مصنوعات پر 104% Tariffs نافذ ہوں گے۔ یہ فیصلہ دراصل چین کی طرف سے جوابی Tariffs واپس نہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس اقدام نے نہ صرف عالمی اقتصادی ماحول میں بے چینی پیدا کر دی ہے. بلکہ نئی Tariffs Policy کے خد و خال بھی واضح کر دیے ہیں۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ United States and China کے درمیان جاری Trade War اب صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں رہا. بلکہ یہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی. تو آنے والے دنوں میں دنیا کو ایک نئی، سخت اور غیر متوازن Tariffs Policy کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. جس میں ہر ملک اپنی بقا کے لیے انفرادی فیصلے کرنے پر مجبور ہو گا۔
United States اور China: ایک خطرناک معاشی کھچاؤ
White House کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق چین کی جانب سے کوئی لچک دکھائے بغیر جوابی Tariffs کو برقرار رکھنا، امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اسی لیے صدر ٹرمپ نے ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے نئی Trade Policy کا اعلان کیا. تاکہ چین پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ اُن کا کہنا ہے کہ چین بظاہر معاہدے کا خواہاں ہے. مگر عملی اقدامات کی کمی نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ اقدام واضح کرتا ہے کہ United States اور China کے درمیان تعلقات محض سفارتی نہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی سرد مہری کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان Trade War پہلے بھی دنیا بھر کی معیشت پر گہرے اثرات ڈال چکی ہے. اور اب یہ نیا اقدام ان اثرات کو اور بھی سنگین بنا سکتا ہے۔
اگر چین اس پر جوابی قدم اٹھاتا ہے، تو Trade War مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ماضی میں چین نے امریکی زرعی مصنوعات پر جوابی Tariffs لگا کر امریکہ کو جھٹکا دیا تھا۔ اب ایک بار پھر یہی خدشہ ہے کہ چین خاموش نہیں بیٹھے گا، بلکہ نئی حکمت عملی اپنائے گا جو کہ عالمی تجارتی توازن کو مزید متاثر کرے گی۔
عالمی اثرات اور سرمایہ کاری کا ماحول
تقریباً 70 ممالک نے فوری طور پر United States سے رابطہ کیا ہے. تاکہ اس نئی Tariffs Policy کے اثرات کو سمجھا جا سکے۔ خاص طور پر ان ممالک کو تشویش ہے جن کی معیشتیں چین یا امریکہ سے جڑی ہوئی ہیں۔ عالمی Stock Markets میں بھی بے چینی کی لہر دوڑ چکی ہے، اور سرمایہ کار محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
White House کا دعویٰ ہے کہ ہر معاہدے میں American Workers کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ مگر سچ یہ ہے کہ چینی مصنوعات پر سخت Tariffs کی وجہ سے اشیاء مہنگی ہو جائیں گی. اور عام امریکی صارفین کو اس کا براہِ راست اثر محسوس ہو گا۔ نئی Tariffs Policy اگرچہ چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے متعارف کی گئی ہے. لیکن اس کے اثرات امریکہ کے اندر بھی محسوس کیے جائیں گے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔