آسٹریلیئن ڈالر میں تیزی، 3 ہفتوں کی بلند ترین سطح پر آ گیا۔
ایشیائی سیشنز کے دوران امریکی ڈالر دفاعی انداز اختیار کئے ہوئے ہے۔
آسٹریلیئن ڈالر تین ہفتوں کی بلند ترین سطح پر آ گیا ہے۔ U.S CPI Report کے ریلیز ہونے اور امریکہ چین تناؤ میں کمی کے AUDUSD پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسکے علاوہ مثبت Australian Business Confidence رہورٹ سے بھی Aussie ڈالر کی طلب (Demand) میں اضافہ ہوا ہے۔
US CPI کی تفصیلات
گذشتہ روز ریلیز کئے جانیوالی US CPI Report میں یوکرائن پر روسی حملے کے بعد پہلی بار Headline Inflation کی سطح 3 فیصد پر آ گئی۔ جبکہ Core Inflation بھی ایک سال سے زائد عرصے کے بعد 4 فیصد سالانہ پر ریکارڈ کی گئی۔ ڈیٹا سے امریکی ڈالر انڈیکس کوئی سپورٹ حاصل نہ کرتے ہوئے بدترین گراوٹ کا شکار ہوا۔ جبکہ 10 سالہ مدت کی US Bonds Yields میں بھی کمی نوٹ کی گئی۔
تمام توقعات کو مات دیتے ہوئے افراط زر کی یہ ریڈنگ امریکی معیشت اور لیبر مارکیٹ پر دباؤ میں کمی کو ظاہر کر رہی ہے۔ ڈیٹا کا سب سے مثبت پہلو فوڈ اینڈ انرجی آئٹمز کی قیمتوں میں ماہانہ سطح پر 1 فیصد سے زائد کمی کا ہونا ہے۔ جبکہ دیگر نمام شعبوں کے کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) میں بھی کمی واقع ہوئی۔ ماہانہ افراط زر 0.2 فیصد پر محدود ہو جانے سے کساد بازاری (Recession) کا رسک فیکٹر بڑی حد تک ختم ہو گیا۔ تاہم لیبر مارکیٹ پر اسکے حقیقی اثرات کا اندازہ رواں ہفتے کے U.S Jobless Claims سے کیا جا سکے گا۔
مثبت رپورٹ اور چینی مذاکرات سے امریکی ڈالر پر منفی اور دیگر کرنسیز ہر مثبت اثرات کیوں مرتب ہوئے ؟
رہورٹ سے قبل سرمایہ کار محتاط انداز اختیار کئے ہوئے تھے کیونکہ رواں جاری ہونیوالے تمام ہائی پروفائل ڈیٹا میں افراط زر کی صورتحال غیر واضح تھی اور مارکیٹ میں مثبت اعداد و شمار کو بھی کساد بازاری کی علامات سمجھا جا رہا تھا۔ ایسے میں امریکی فیڈرل ریزرو کی طرف سے بھی Rates Hike Program جاری رکھے جانے کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں۔
تاہم گذشتہ روز جاری ہونیوالی رپورٹ سے معاشی منظر نامہ واضح ہو گیا ہے اور اگرچہ FOMC کی میٹنگ میں 25 بنیادی پوائنٹس کے پالیسی ریٹس کے امکانات ختم نہیں ہوئے تاہم طویل المدتی بنیادوں پر سخت مانیٹری پالیسی کا جواز باقی نہیں رہا۔ اسی پہلو نے اسٹاکس، کماڈٹیز اور ڈالر کے مقابلے میں دیگر تمام کرنسیز کے سرمایہ کاروں کو متحرک کر دیا۔ اور امریکی ڈالر کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔
چین امریکہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے آسٹریلیئن ڈالر پر اثرات
اس حوالے سے حوالے سے ایک اور بڑی خبر گذشتہ روز Tesla اور Space X کے بعد اب سوشل میڈیا پلیٹ فارم Twitter کے بھی مالک ایلون مسک کی چینی صدر ژی جن پنگ سے ہونیوالی ملاقات ہے۔ جسے ایشیائی طاقت کو Smart Chips پر عائد ہونیوالی ہابندیوں کے تناظر میں انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس میں مسک اور چینی راہنما کے درمیان Artificial Intelligence میں تعاون پر گفت و شنید ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مسک اہنی نئی کمپنی XAL میں چینی شراکت داری کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں سیکرٹری آف اسٹیٹ اور خزانہ کی طرف سے بیجنگ آمد کے یہ کسی امریکی شخصیت کا تیسرا اہم ترین دورہ ہے جسے باضابطہ مذاکرات کے بعد بیک چینل ڈپلومیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی ماہرین دو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان کئی برسوں سے جمی ہوئی برف پگھلنے کو عالمی معیشت اور استحکام رسد کے لئے ایک مثبت ٹریگر کے طور پر لے رہے ہیں۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور صورتحال کو ایک نئی Cold War کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ Global Sto میں ان خبروں سے سرمایہ کاری کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اثرات آنیوالے دنوں میں بھی نظر آتے رہیں گے۔
چین آسٹریلیا کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور وہ عالمی ٹریڈ میں آسٹریلیئن اور نیوزی لینڈ ڈالرز کو تصفیئے کیلئے بھی استعمال کرتا ہے۔ چینی معیشت یا Geo Political خبروں کے اثرات آسٹریلیئن مارکیٹس پر خود چین سے بھی زیادہ مرتب ہوتے ہیں کیونکہ AUD کی سب سے زیادہ طلب بھی وہیں سے پیدا ہوتی ہے۔
ٹیکنیکی جائزہ
ٹیکنیکی نقطہ نظر سے AUDUSD اہنی 20SMA اور Fibonacci کی 61.8 فیصد ریٹریسمنٹ کے لیول کو حاصل اور 0.6800 کی مزاحمت (Resistance) کو عبور کرتے ہوئے انتہائی بلش زون میں داخل ہو گیا ہے۔ Aussie ڈالر اسوقت 0.6813 پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
اس سطح پر اسکے سپورٹ لیولز 0.6810, 0.6780 اور 0.6750 ہیں۔ جبکہ مزاحمتی حدیں 0.6830, 0.6860 اور 0.6890 ہیں۔ تیسرا لیول عبور کرنے پر یہ 0.7000 کو عبور کرنے کے لئے درکار اسٹرینتھ حاصل کر لے گا۔ یہ بھی بتاتے چلیں کہ اسوقت 14 روزہ ریلیٹو اسٹرینتھ انڈیکس (RSI) 60 سے اوپر ہے جو کہ بلش ٹرینڈ جاری رہنے کو ظاہر کر رہا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔