پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ کا تسلسل جاری۔ گولڈ کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ

IMF Program بحال ہونے کے باوجود ڈالر مہنگا ہو رہا ہے۔

پاکستانی روپے میں گراوٹ کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ جبکہ اسکے مقابلے میں امریکی ڈالر (USDPKR) جارحانہ انداز اپنائے ہوئے انٹربینک میں 4 روپے اضافے کے ساتھ 283 روپے فی ڈالر کی سطح پر آ گیا۔ دوسری طرف گولڈ کی قیمتیں ایک بار پھر تاریخ کی بلند ترین سطح 2 لاکھ 15 ہزار روپے فی تولہ پرپہنچ گئی ہیں۔

پاکستانی روپے میں گراوٹ کی بڑی وجوہات۔

آج بھی پاکستان کے معاشی اعشاریے (Financial Indicators) منفی منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے۔ جبکہ IMF کی طرف سے جنوبی ایشیائی ملک کا پروگرام ایک سال کے وقفے سے دوبارہ بحالی کے بعد 1 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی پہلی قسط بھی جاری کر دی گئی ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق اسوقت پاکستانی روپے میں گراوٹ اور منفی اقتصادی کارکردگی کی وجوہات معاشی سے زیادہ سیاسی ہیں۔ ARY News سے منسلک اور پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے موقر صحافی آصف قریشی کہتے ہیں کہ اگرچہ ملک میں انتخابات کا فیصلہ ہو چکا ہے تاہم یہ 60 روز کے اندر ہوں گے یا 90 روز میں اس سلسلے میں خاصا ابہام اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مقتدر حلقے اس حوالے سے حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے۔

سیاسی عدم استحکام کا معاشی اتار چڑھاؤ سے کیا تعلق ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے آصف قریشی نے کہا کہ اگر حکومت اپنی مدت پوری کئے بغیر مقررہ وقت سے دو روز قبل بھی اسمبلیاں تحلیل کر دیتی ہے تو اس صورت میں 1973ء کا آئین کہتا ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات کروائے جائیں گے جبکہ اس معاملے پر صدر کا کردار بھی محدود ہے۔ اگر وہ سمری پر دستخط نہیں بھی کرتے تب بھی 48 گھنٹوں میں اسمبلیاں خود بخود ٹوٹ جائیں گی۔

انکے خیال میں اسکے برعکس مدت پوری کر کے تحلیل ہونے کی صورت میں 60 ایام میں الیکشنز کا انعقاد کرنا ہو گا۔ جو کہ بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔ اتحادی حکومت پہلی آپشن استعمال کرے گی تا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف زیر سماعت مقدمات کوئی واضح سمت اختیار کر لیں نیز انکی جماعت سے الگ ہونیوالے گروپس بھی اپنے قدم پوری طرح سے جما سکیں۔

Blink Capital Management کے سربراہ حسن مقصود کی بھی یہی خیال ہے کہ چند دنوں کے بعد ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) سمیت تمام معاشی اعشاریوں کا منفی آؤٹ لک غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث ہے۔ انکے مطابق یہ ایک روائت رہی ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے دور میں سرمایہ کار اپنے اثاثے تحلیل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ BCM کے چیف ایگزیکٹو نے یہ بھی پیشگوئی کی کہ نئے انتخابات تک کیپٹیل مارکیٹ کی یہ صورتحال جاری رہ سکتی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button