US CPI Report کے بعد Financial Markets کی سمت کیا ہو گی؟
Investors are anxiously waiting for fresh impetus and Inflation reading

US CPI Report آج جاری کی جائے گی۔ Bureau Of Labor Statistics عالمی معیاری وقت کے 13.30 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق 18.30بجے) رپورٹ پبلش کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ Financial Markets کے سرمایہ کار محتاط انداز اختیار کیے ہوئے ہیں.
اس بار یہ رپورٹ اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے. کہ اس کے ممکنہ اثرات Federal Reserve کے Rates Cut Policy پر مرتب ہو سکتے ہیں. خاص طور پر ان حالات میں جبکہ ٹرمپ انتظامیہ International Trade کے حوالے سے Trade War کا آغاز کر چکی ہے . اور رواں سال US Monetary Policy کو لے کر معاشی ماہرین میں شد و مد سے بحث جاری ہے.
امریکی پالیسی میں تبدیلیوں کے پس منظر میں اہمیت.
US CPI Report امریکی مالیاتی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اگر حکومت اور Federal Reserve کے درمیان اختلافات مزید بڑھتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جس کا اثر سرمایہ کاری، معیشت اور عالمی سطح پر Dollar Strength پر بھی پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی رپورٹ سے Financial Markets کا بھرپور ردعمل سامنے نہیں آ سکا تھا. کیونکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے بعد مختلف محکموں میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز کر دیا تھا . اور اب انکی جانب سے معیشت بارے ہر اہم موضوع پر عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے. جن سے EU Union سمیت اس کے تمام حلیف اور حریف ممالک یکساں پریشانی کے شکار ہیں.
US Presidential Elections کے بعد Financial Markets میں غیر یقینی صورتحال کیوں ہے؟
آج کی اس رپورٹ کی اہمیت یوں بھی بڑھ گئی ہے. کیونکہ US Presidential Elections اور Donald Trump کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا Inflation Data ہے. جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے گا کہ Trump Administration کے فیصلے US Economy پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اور کیا Financial Markets امریکی صدر کی جانب سے شروع کی جانیوالے Global Trade War اور اس کے نتیجے میں امریکی معیشت پر Inflation کا بوجھ قابل برداشت ہے یا کہ نہیں.
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ ریلیز ہونے والی رپورٹ سے Financial Markets کا بھرپور ردعمل سامنے نہیں آ سکا تھا. کیونکہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے بعد مختلف محکموں میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز کر دیا تھا . اور اب انکی جانب سے معیشت بارے ہر اہم موضوع پر عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے. جن سے EU Union سمیت اس کے تمام حلیف اور حریف ممالک یکساں پریشانی کے شکار ہیں.
علاوہ ازیں Financial Markets میں Federal Reserve سمیت US Regulatory Institutions میں ممکنہ تبدیلیوں پر بحث اور بے یقینی جاری ہے. معامله یہ ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ وہ White House میں داخلے کے بعد Chairman Fed جیروم پاول اور US SEC کے سربراہ گیری گنسلر کو دو سیکنڈز میں انکے عہدوں سے فارغ کر دیں گے . تاہم
انکے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا. اگرچہ ٹرمپ نے FOMC Rate Decision کے بعد Fed کے سربراہ پر انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ اتنا نااہل شخص انتہائی اہم عہدے پر فائز کیسے ہو گیا.
مستقبل کا منظرنامہ.
آج کی رپورٹ امریکی Economic Officials کے لیے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے کیونکہ یہ ان کے پالیسی فیصلوں کو ثابت کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ خاص طور پر Federal Reserve کے چیئرمین Powell کے لیے یہ رپورٹ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے. کیونکہ وہ مسلسل اس مؤقف پر قائم رہے ہیں کہ Headline Inflation کی شرح کو قابو میں لانے میں وہ تقریباً کامیاب ہو چکے ہیں۔
اگر ان کے دعوے درست ثابت ہوتے ہیں، تو یہ نہ صرف امریکی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہوگا. بلکہ Global Financial Markets میں بھی استحکام پیدا کرے گا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے Central Banks اب تک ایسی پالیسیز اپنانے میں ناکام رہے ہیں. جو افراطِ زر کو مکمل طور پر کنٹرول کر سکیں۔ اس پس منظر میں، اگر امریکی Federal Reserve واقعی Inflation کو معمول پر لے آتا ہے. تو یہ ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی اور دیگر ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرے گی۔
بیانات کی جنگ شدت اختیار کرتے ہوئے.
دوسری جانب، سیاسی منظرنامہ بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ نئے امریکی صدر کی جانب سے ہر Press Conference میں Federal Reserve اور اقتصادی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کے بیانات نہ صرف سخت ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے. کہ وہ Trump Administration کی پالیسیوں کے ساتھ طویل المدتی بنیادوں پر کام جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔
اس سیاسی اختلاف کے باعث امریکی مالیاتی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت اور Federal Reserve کے درمیان اختلافات مزید بڑھتے ہیں. تو اس کے نتیجے میں مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے. جس کا اثر سرمایہ کاری، معیشت اور عالمی سطح پر Dollar Strength پر بھی پڑ سکتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں Powell کے مؤقف کی سچائی اور حکومت کے ردعمل کا تعین آئندہ چند ہفتوں میں ہوگا۔ اگر Headline Inflation واقعی کنٹرول میں آ جاتی ہے. تو یہ امریکی معیشت کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی. لیکن اگر سیاسی کشیدگی برقرار رہتی ہے تو اس کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، آنے والے دنوں میں امریکی معیشت اور سیاست دونوں کے میدان میں بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
مارکیٹ توقعات اور پیشگوئیاں
تخمینے کے مطابق جنوری 2025ء کے دوران ملک میں Inflation کی شرح. 2.9 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ جبکہ Core Inflation کے 3.1 فیصد رہنے کا تخمینہ جاری کیا گیا ہے.

گذشتہ ماہ ریلیز کی جانیوالی دسمبر 2024ء کی Inflation Report میں سالانہ شرح 2.9 فیصد ہی رہی تھی۔ اس طرح آج کے ڈیٹا میں Headline Inflation گذشتہ ماہ کی سطح پر برقرار رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے. اگر ایسا ہوا تو US Federal Reserve آئندہ میٹنگ کے دوران Policy Rates برقرار رکھ سکتا ہے . جس کے بارے میں ابھی تک غیر یقینی صورتحال جاری ہے.
US CPI Report کسے کہتے ہیں اور اس سے کیا نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔؟
Consumer Price Index اہم ترین معاشی رپورٹ تصور کی جاتی ہے. جس سے صارفین کے لئے اشیاء اور خدمات کی ادا شدہ قیمتوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں CPI عوامی سطح پر Food اور Fuels میں مہنگائی اور Headline Inflation کی شرح کو ظاہر کرتا ہے جس کی بنیاد پر Federal Reserve Open Market Committee کے پالیسی ساز ارکان Monetary Policy میں تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
US CPI Report کے متوقع اثرات۔
توقعات کے مطابق رپورٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ دسمبر 2024ء کی نسبت جنوری میں Inflation اپنی جگہ پر برقرار رہی. جس کے نتیجے میں Stocks اورCommodities بالخصوص Gold کی طلب میں کمی آ سکتی ہے. کیونکہ سرمایہ کاروں کیلئے Recession کا رسک فیکٹر ابھی بھی اپنی شدت کے ساتھ موجود ہے. بصورت دیگر Precious Metals کی خرید داری میں اضافہ ہونے کا امکان ہے.
توقعات سے کم CPI نہ صرف Stocks کی قدر میں تیزی کا باعث بنتی ہے. بلکہ اس سے Gold اور Platinum سمیت Metals کی طلب و قدر میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے. لیکن اسکے حقیقی اثرات کا تعین رپورٹ کے اجراء سے چار گھنٹوں کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ ڈیٹا ریلیز ہونے کے فوری بعد آنے والا ردعمل بعض اوقات غیر متوقع ہوتا ہے۔
دوسری طرف US Dollar پر اسکے اثرات عمومی طور پر Stocks اور Commodities کے برعکس ہوتے ہیں۔ کم Inflation اور مہنگائی واضح اشارہ دیتی ہے. کہ Federal Reserve پالیسی کو نرم اور Interest Rate میں کمی کرنے جا رہا ہے
اس سے امریکی ڈالر اور اس سے منسلک US Treasury Bonds ( خاص طور پر 3 اور 10 سالہ مدت) کی طلب و قدر اور Yields میں کمی واقع ہوتی ہے. اور Euro, British Pound سمیت دیگر عالمی Currencies کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔
Crypto Currencies پر اسکے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
اگر US CPI Report میں افراطِ زر کی شرح زیادہ ہوتی ہے. تو امریکی مرکزی بینک، یعنی Federal Reserve, ممکنہ طور پر Interest Rates کو بڑھا سکتا ہے۔ Higher Interest Rates سے اسٹاک مارکیٹس اور Crypto Currencies دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ جب سود کی شرح بڑھتی ہے، تو سرمایہ کار کم خطرہ والے اثاثوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسے کہ Government Bonds, اور Crypto کی طلب میں کمی آتی ہے۔
کچھ سرمایہ کار Crypto Currencies کو Inflation Hedge کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یعنی اگر افراطِ زر بڑھتا ہے تو وہ اپنی دولت کو Bitcoin, Ethereum یا دیگر Digital Assets میں منتقل کرتے ہیں. تاکہ اپنی خریداری کی طاقت کو محفوظ رکھ سکیں۔ تاہم، US CPI Report کے نتائج کے بعد یہ سرمایہ کاری کے فیصلے تیزی سے بدل سکتے ہیں۔ اگر افراطِ زر بڑھتا ہے تو Bitcoin اور Ethereum جیسے Crypto Currencies میں اضافہ ہو سکتا ہے. لیکن اگر رپورٹ پیشگوئیوں سے کم ہو تو ان کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے۔
چونکہ US Dollar عالمی معیشت میں ایک اہم کرنسی ہے. اس لیے US CPI Report نہ صرف امریکی مارکیٹ بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ جب امریکی افراطِ زر میں تبدیلی آتی ہے. تو اس سے دیگر ممالک کی کرنسیوں اور عالمی FINANCIAL Markets پر بھی اثر پڑتا ہے۔
رپورٹ سے پہلے Global Markets کی صورتحال
تاہم آج کی رپورٹ ریلیز ہونے سے پہلے USD کے مقابلے میں دیگر اثاثے قدرے دباؤ میں نظر آ رہے ہیں ۔ جس کی وجہ Global Financial Crisis اور Middle East کی صورتحال کے علاوہ FOMC Minutes جاری ہونے کے بعد کا منظرنامہ ہے . جس میں 50 یا 25 پوائنٹس Rates Cut کی بحث سرمایہ کاروں کو الجھائے ہوئے ہے.
عام طور پر Crypto currencies پر بھی اسکے اثرات US Dollar کے برعکس ہوتے ہیں کیونکہ امریکی ڈالر کی طلب میں کمی کے واضح معنی اسکے مدمقابل اور مخالف سمت میں ٹریڈ کرنیوالی Currencies، Stocks اورکموڈیٹیز کی قدر میں اضافہ پے ۔
Financial Markets میں آج Consumer Price Index کے پیش نظر ٹریڈنگ والیوم خاصا کم ہے۔ اسوقت سرمایہ کاروں کی اکثریت Inflation Data کا انتظار کر رہی ہے . اور اسکے بعد ہی اپنی معاشی سرگرمیاں بھرپور انداز میں شروع کرے گی۔
عالمی معیشت پر اثرات.
US CPI Report عالمی معیشت پر کئی طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔ چونکہ US Dollar عالمی تجارت میں ایک اہم کرنسی ہے. اس لیے US CPI Report کے نتائج کا اثر عالمی مالیاتی مارکیٹس، کرنسی کی قیمتوں، اور حتی کہ دنیا بھر کے معاشی فیصلوں پر پڑتا ہے۔
اگر US CPI Report میں افراطِ زر (Inflation) کا اضافہ دکھایا جاتا ہے. تو اس سے Federal Reserve کی پالیسیوں پر اثر پڑتا ہے۔ Federal Reserve سود کی شرح (Interest Rates) بڑھا سکتا ہے تاکہ افراطِ زر کو کنٹرول کیا جا سکے۔ چونکہ US Dollar عالمی کرنسی ہے. اس سے دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر امریکی مرکزی بینک سود کی شرح بڑھاتا ہے. تو دیگر ممالک کے مرکزی بینک بھی اپنے فیصلوں میں تبدیلی کر سکتے ہیں. جس کا عالمی معیشت پر دور رس اثر پڑتا ہے۔
US CPI Report کا اثر عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے بہاؤ پر بھی پڑتا ہے۔ جب US Dollar مضبوط ہوتا ہے، تو اس سے عالمی تجارت متاثر ہوتی ہے۔ US Dollar کی قیمت میں اضافے سے امریکہ کی مصنوعات اور خدمات مہنگی ہو جاتی ہیں، جس سے عالمی سطح پر تجارتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر CPI Report میں افراطِ زر کم دکھائی دیتا ہے اور US Dollar کمزور ہوتا ہے، تو عالمی سطح پر امریکی مصنوعات سستی ہو سکتی ہیں، اور Global Trade میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔