CPEC کے دس سال ، پاکستانی معیشت ہر کیا اثرات مرتب ہوئے .؟

کیا روڑ اینڈ بیلٹ انیشیٹو سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکا ؟

CPEC ہروجیکٹ کو 10 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ چینی نائب وزیر اعظم بے لیفینگ اس سلسلے میں منعقد کی جانیوالی تقریبات میں شرکت کیلئے اسلام آباد میں موجود ہیں One Belt , One Road وژن کے تحت شروع کئے جانیوالے منصوبے کے آغاز سے لے کر اب تک اس پر کافی بحث کی گئی ہے۔ بلاشبہ یہ مستقبل کے پاکستان کی تعمیر کا آغاز ہے۔ لیکن حالیہ عرصے کے دوران اس سلسلے میں کئی رکاوٹیں بھی دیکھنے میں آئیں ہیں۔

CPEC ایک گیم چینجر پلان

اس عظیم ترقیاتی منصوبے پر 2013ء پر کام کا آغاز کیا گیا۔ اب تک چین پاکستان میں ہبلک ٹرانسپورٹ ، توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر ایک اندازے کے مطابق 25 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ لیکن اس کی تکمیل میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ جن میں سرفہرست پاکستان کا موجودہ مالیاتی بحران ہے۔

جنوبی ایشیائی ملک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر (Foreign Exchange Reserve) کی شدید کمی کے باعث دیوالیہ ہونے سے بال بال بچا ہے۔ اور یہ بھی بیجنگ کی طرف سے دیئے جانیوالے بیل آؤٹ پیکجز کے باعث ممکن ہو پایا ہے۔

سی۔پیک کا بنیادی مقصد چین کو گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں پاکستان کے بڑے شہروں میں اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ تاہم چین کو بحیرہ عرب سے جوڑنے کا ہدف ابھی تک حاصل نہیں کیا جا سکا۔ کورونا کی عالمی وباء سے بھی اسکی رفتار میں کمی آئی۔

اب دنیا کی دوسری بڑی معیشت سخت معاشی اور سماجی پابندیوں کو ختم کر کے ایک نئے عزم کے ساتھ معاشی پلان ترتیب دے رہی ہے اور China Pakistan Economic Corridor جسے سادہ مختصر الفاظ میں سی۔پیک کہا جاتا ہے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے۔

چین پاکستان کا سب سے بااعتماد شراکت دار

چین پاکستان کا سب سے بااعتماد دوست اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ اس نے ہر مشکل وقت میں کھل کر مالی معاونت فراہم کی۔ بیجنگ کیلئے پاکستان ایک جغرافیائی فلیش پوائنٹ ہے۔ کیونکہ انڈیا کے ذریعے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں بحر ہند اور جنوب مشرقی بحیرہ اٹلانٹک کے علاقوں میں طاقت کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایسے میں چین کے لئے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ تائیوان اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہونیوالی سرگرمیاں اس Geo.Political Strategy کا حصہ ہیں جنکا اصل مقصد چینی مفادات کو محدود کرنا ہے۔ ان حالات میں پاکستان اسے سیاسی اور سفارتی محاذوں پر سپورٹ مہیا کرتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان 596 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔ پاکستانی عسکری حکام باہمی تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ کراچی سے خیبر تک زبان زد عام ہیں کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند ، بحیرہ عرب سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔

کیا سی۔پیک میں خطے کے دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں ؟

معاشی ماہرین کے مطابق ایسا یونا بالکل ممکن ہے۔ اور دراصل پس پردہ سعودی عرب اور قطر اس کے کئی شعبوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ کیونکہ محمد بن سلمان اور شیخ التمیمی جنوبی اور مشرقی ایشیا میں تیل و گیس کے سپلائی روٹس کم کرنا چاہتے ہیں۔ جس کے لئے وہ گوادر میں ریفائنرئز اور دیگر لاجسٹک انفراسٹرکچر تعمیر کر رہے ہیں۔

جبکہ متحدہ عرب امارات بھی اس میں شیمولیت کا خواہشمند ہے۔ پاکستان کے معاشی بحران میں ان ممالک کی طرف سے دی گئی امداد دراصل روڑ اینڈ بیلٹ انیشیٹو میں بالواسطہ اینٹری یے۔ جسے بیجنگ کی آشیرباد بھی حاصل ہے۔

دنیا بالخصوص ایشیا ایک ٹرانزیشنل دور سے گذر رہی ہے۔ اور خطے کے تمام راہنماؤں کو اس کا پورا احساس ہے۔ دوستی کی پینگیں بڑھاتے ایران اور سعودی عرب کی عشروں پر محیط رقابت کو دیکھتے ہوئے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ ان کے تعلقات معمول پر بھی آ سکتے ہیں۔ اور ایسا کر کے ژی جن پنگ نے دراصل بائیڈن انتظامیہ پر اپنی سیاسی برتری کو ثابت کیا ہے۔

ایشیا تیزی کے ساتھ امریکی بلاک سے باہر آ رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونیوالا نیو ورلڈ آرڈر بیجنگ میں نئے سرے سے ترتیب دیا جا رہا ہے۔ جس میں گوادر ایک کراس روڈز کا کردار ادا کرے گا۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button