Pakistan Revenue Automation Limited کی تنظیم نو : FBR کے لیے ایک نیا دور
To improve tax-to-GDP ratio, PRAL continues to be on the front line in data collection
Pakistan Revenue Automation Limited کی تنظیم نو کا مقصد FBR کے Revenue Automation نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ادارہ FBR کے لیے ڈیجیٹلائزیشن، ڈیٹا مینجمنٹ، اور ریونیو بڑھانے کے لیے ایک اہم معاون ادارہ رہا ہے۔ تاہم، یہ Modern Technology اور Efficient Governance کے چیلنجز کا سامنا کر رہا تھا۔
تنظیم نو کے اہم نکات
FBR کی جانب سے ECC (Economic Coordination Committee) کے اجلاس میں PRAL کی تنظیم نو کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔ اس میں مندرجہ ذیل اہم اقدامات شامل ہیں:
- Independent Board کی تقرری، جو گورننس کو بہتر بنائے گی۔
- Software Development اور دیکھ بھال کی صلاحیت کو بڑھانا۔
- Hardware Upgradation اور ڈیٹا سینٹرز کو جدید خطوط پر استوار کرنا۔
- ایک Analytical Hub کی تشکیل تاکہ ڈیٹا پر مبنی معلومات فراہم کی جا سکیں۔
- ایک Dedicated Procurement Cell کا قیام تاکہ Technology Solutions کی خریداری کو بہتر بنایا جا سکے۔
- Organizational Reforms کے ذریعے ماہرین کی بھرتی اور کارکردگی کے لیے ترغیبات کا نظام نافذ کرنا۔
PRAL کی موجودہ حیثیت اور چیلنجز
Pakistan Revenue Automation Limited دراصل FBR کی ایک اہم شاخ ہے. جو ملک کے Revenue Automation فنکشن کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے گوشواروں کی Digitalization، شہریوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور دیگر ریونیو اداروں کے ساتھ ڈیٹا کے انضمام میں مددگار رہا ہے۔
لیکن، وقت کے ساتھ یہ ادارہ درج ذیل مسائل کا شکار رہا:
- Governance کی کمزوری، جس کی وجہ سے فیصلے کرنے کی رفتار سست ہو گئی۔
- پرانے Technological Infrastructure کے باعث، نظام میں کئی خامیاں پیدا ہوئیں۔
- محدود Capacity and Efficiency، جو بڑھتے ہوئے کام کے دباؤ کو سنبھالنے میں ناکام رہی۔
- غیر مؤثر کام کا ماڈل، جو جدید تقاضوں کے مطابق نہیں تھا۔
تنظیم نو کے اہم پہلو
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کی منظوری سے Pakistan Revenue Automation Limited کے تنظیم نو کے منصوبے کو عملی شکل دی جا رہی ہے۔ اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1. Governance کی بہتری
- ایک Independent Board کی تشکیل کی گئی ہے، جو اہم پالیسی فیصلوں میں مدد دے گا اور گورننس کو بہتر بنائے گا۔
- PRAL کو ایک علیحدہ خرچ مرکز کے طور پر قائم کیا جا رہا ہے، جس سے مالی معاملات کی شفافیت میں اضافہ ہوگا۔
2. Technology Upgradation
- پرانے Hardware کو تبدیل کر کے ایک جدید Data Center قائم کیا جائے گا۔
- Software Development اور دیکھ بھال کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے اندرونی اور بیرونی وسائل کا بہتر استعمال کیا جائے گا۔
- ایک Analytical Hub قائم کیا جائے گا تاکہ ڈیٹا پر مبنی فیصلے بہتر طریقے سے کیے جا سکیں۔
3. Dedicated Procurement Cell
- ٹیکنالوجی کے حل خریدنے کے لیے ایک مخصوص سیل قائم کیا جا رہا ہے، جو وقت اور وسائل کی بچت کرے گا۔
4. Human Resource Management
- تنظیم نو کے تحت ماہرین کی بھرتی اور موجودہ عملے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ترغیبات کا نظام نافذ کیا جائے گا۔
- ایف بی آر کے ساتھ Coordination کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
مالیاتی پہلو
PRAL کی تنظیم نو کے لیے مالی وسائل کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے:
- موجودہ مالی سال کے لیے 3.7 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
- آئندہ مالی سال کے لیے 4.5 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
- یہ رقم Development Schemes اور دیگر وسائل کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔
متوقع نتائج اور اثرات
- Tax-to-GDP Ratio میں بہتری:
تنظیم نو کے بعد، PRAL ایف بی آر کو زیادہ مؤثر طریقے سے ریونیو اکٹھا کرنے میں مدد دے گا۔ - Technology-Driven Efficiency:
جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف نظام کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ شہریوں کے لیے سہولت میں بھی اضافہ ہوگا۔ - Enhanced Transparency:
PRAL کے اندر Governance Reforms سے شفافیت میں اضافہ ہوگا، جس سے عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ - Cost Efficiency:
نئے ماڈلز اور Outsourcing کے ذریعے کام کرنے کی لاگت میں کمی آئے گی۔
PRAL کی تنظیم نو پاکستان کے ٹیکس نظام میں ایک انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جدید Technology، مؤثر Governance، اور بہتر مالی وسائل کے ساتھ یہ ادارہ نہ صرف ایف بی آر کے لیے ایک طاقتور معاون بنے گا بلکہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
یہ اقدام پاکستان کو Digital Economy کی جانب لے جانے اور Ease of Doing Business کو بہتر بنانے کے حکومتی وژن کا حصہ ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔