China کی Economic Growth اور Defense Expansion – عالمی معیشت کے لیے نئے چیلنجز
Trade War tensions and rising military spending, strategies are reshaping dynamics.

China کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سال 2025 میں ملک کی Economic Growth کا ہدف پانچ فیصد ہوگا۔ یہ ہدف گزشتہ سال کے برابر ہے. حالانکہ Trade War کے خطرات اب بھی برقرار ہیں۔ صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے. جن میں Military Modernization اور Geopolitical Challenges سے نمٹنے کی حکمت عملی شامل ہیں۔
چینی پارلیمان کے سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم لی کیانگ نے GDP اور Economic Growth کے اعداد و شمار پیش کیے. جو اس وقت عالمی معیشت کے لیے بھی اہم سمجھے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں چینی اشیاء پر Tariffs میں اضافہ کر دیا. جو پہلے 10 فیصد تھا اور اب 20 فیصد کر دیا گیا ہے۔ China نے بھی امریکی مصنوعات پر Counter Tariffs عائد کیے ہیں. اور اعلان کیا ہے کہ وہ Trade War کے کسی بھی مرحلے پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہ تجارتی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب چین Real Estate Market Slowdown اور Domestic Demand میں کمی سے نمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے مطابق، چین کی معیشت 2025 میں 4.6 فیصد کی رفتار سے ترقی کرے گی، جو 2024 کے 5 فیصد سے کم ہے۔
Defense Budget میں اضافہ اور اس کے اثرات.
China نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2025 میں اپنے Defense Budget میں 7.2 فیصد کا اضافہ کرے گا۔ صدر شی جن پنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چین کا Defense Expenditure دو گنا ہو چکا ہے. اور اب وہ امریکہ کے بعد دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔ اس اضافے کا بنیادی مقصد چین کے اندرونی اور بیرونی Security Challenges سے نمٹنا ہے۔
Military Expansion کے ساتھ ساتھ، چین نے Taiwan کے حوالے سے اپنی پالیسی کو مزید سخت کر دیا ہے۔ بیجنگ کا مؤقف ہے کہ تائیوان چین کا حصہ ہے. اور ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم لی کیانگ نے کہا کہ چین Reunification Goals کو مضبوطی سے آگے بڑھائے گا. اور تائیوان میں اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ National Revival کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کام کرے گا۔
ممکنہ اثرات.
اس Defense Budget میں اضافے کے کئی دیگر اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت نہ صرف خطے میں Geopolitical Balance کو متاثر کرے گی. بلکہ امریکہ، جاپان، اور بھارت جیسے ممالک کے لیے بھی ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ خاص طور پر South China Sea میں چین کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، Indo-Pacific Strategy کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک چین کی اس فوجی ترقی کو روکنے کے لیے نئے دفاعی معاہدے کر سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر، چین کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات دیگر ممالک کو بھی اپنے Military Expenditure میں اضافے پر مجبور کر سکتے ہیں. جس کے نتیجے میں ایک نئی Arms Race شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے. کہ اگر اسلحے کی دوڑ مزید شدت اختیار کر گئی. تو خطے میں Security Dilemma پیدا ہو سکتا ہے. جو بالآخر کسی بڑے تنازعے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
China-US Trade War اور عالمی معیشت پر اثر
China اور امریکہ کی Trade War نہ صرف دونوں ممالک کی معیشتوں پر اثر انداز ہو رہی ہے. بلکہ عالمی مالیاتی منڈیوں پر بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ چین کے Manufacturing Sector کو امریکی Sanctions کی وجہ سے دباؤ کا سامنا ہے، جبکہ امریکہ بھی چینی Retaliatory Tariffs کے نتیجے میں مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر US-China Trade Tensions میں مزید اضافہ ہوا، تو اس سے عالمی سطح پر Supply Chains متاثر ہو سکتی ہیں، جس سے نہ صرف Stock Markets میں عدم استحکام پیدا ہوگا بلکہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
China کی Economic Growth Strategy اور Trade War کے دوران اس کا طرزِ عمل عالمی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔ اگر چین اپنی Domestic Market کو مضبوط بنانے اور Investment Opportunities پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یہ مستقبل میں عالمی سطح پر اس کی Economic Influence کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ دوسری جانب، اگر US-China Trade Relations مزید خراب ہوتے ہیں، تو یہ دونوں سپر پاورز کی معیشتوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک پر بھی اثر ڈالے گا۔
Source: official Website of Reuters News Agency https://www.reuters.com
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔