پاکستانی بجٹ پر عالمی اداروں کے اعترضات, حقائق کیا ہیں؟

کیا پاکستان اس سنگین معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے؟

پاکستانی بجٹ قومی اسمبلی میں  پیش  ہونے سی لے کر اب تک اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے خاص طورپر عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے ایک بار پھر ملک کے کم زرمبادلہ ذخائر کی نشاندہی کرتے ہوئے دیوالیہ  ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کیے جاںے والے وفاقی بجٹ پر بدھ کی رات عالمی ادارے کے پاکستان مشن  کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا جس میں مختلف پوائنٹس پر اعتراض کیا گیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد اعلانات اور مختلف اقدامات کے باوجود پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے  بیل آوٹ پیکج  کی قسط کے لیے نواں جائزہ  کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔

پاکستان کو اگلے مالی سال میں  15 ارب ڈالر سے زیادہ کی  بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں ہے ۔ عالمی مالیاتی فنڈ  کے ساتھ پاکستان کا موجودہ  پروگرام جون میں ختم ہونا ہے۔

پاکستانی بجٹ پر عالمی مالیاتی فنڈ کے بڑے اعتراضات کیا ہیں ؟

آئی ایم ایف کی پاکستان کیلئے نمائندہ ایستھر پیریز روٹز  نے اپنے بیان میں  حکومت کی طرف سے مجوزہ  ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو نقصان دہ مثال قرار دیتے ہوئے معاہدے کی بنیادی شرائط کی خلاف ورزی قرار دیا۔

انہوں  نے بیان میں یہ بھی کہا کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اگلے  مالی سال کے لیےتجویز کردہ بجٹ میں ٹیکس کے نظام کو پھیلانے کے موقع کو ضائع کیا گیا۔ ان کے مطابق توانائی کے شعبے کے لیکویڈیٹی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو بجٹ کی وسیع حکمت عملی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

تاہم ایستھر پیریز روٹز کا کہنا ہے  کہ ادارہ  استحکام برقرار رکھنے کے لیے پالیسیوں پر بات چیت کر رہا ہے۔

پاکستانی حکام کا موقف 

جمرات کے روز پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے پریس کانفرنس کے دوران IMF کی شرائط پوری کۓ جانے کے باوجود معاہدے نہ کرنے کو GEO Politics  کی بدترین مثال قرار دیا. انہوں نے ایستھر پیریز کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ کہتے ہے شدید تنقید کا نشانہ بنایا . انہوں نے مزید کہا کہ عالمی فنڈ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مغرب مخالف کیمپ سمجھتا ہے.

وفاقی وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنے 20 سال پر محیط کیریئر میں عالمی ادارے کا اس طرح کا رویہ پہلے کبھی نہیں دیکھا ، مزید براں پاکستان کے پاس اتنا حق ضرور ہے کہ وہ اپنی عوام کو کوئی سبسڈی دے سکے ، انہوں نے مفصل انداز میں کہا کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور انکے پاس ایمرجنسی کیلئے پلان بی موجود ہے.

اس سے صرف ایک روز قبل  وزیر خزانہ  نے کہا تھا کہ ’بجٹ کی تجاویز  آنے  کے بعد آئی ایم ایف ہم سے کئی بار سوالات کر چکا ہے۔ اور انہیں توقع ہے کہ بجٹ کے حوالے سے کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو مسئلہ ثابت ہو

خیال  رہے کہ پاکستان نے رواں سال کے آغاز  سے لے کر اب تک اس  پروگرام کی بحالی کے لیے مختلف شرائط پوری کی ہیں جن میں Energy  Sector میں سبسڈی کا خاتمہ اور بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکسز  کی وصولی  شامل ہیں  اس کے ساتھ اضافی فنڈز  اکٹھا کرنے کے لیے Sales Tax   سترہ سے اٹھارہ  فیصد کر دی گیا  جبکہ کئی اشیا پر اس کی شرح 25 فیصد کر دی گئی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی  اضافہ کیا گیا۔

کیا عالمی فنڈ کا پروگرام نہ ملنے کی صورت میں پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے ؟

عالمی مالیاتی فنڈ  کی جانب سے پاکستان کے بجٹ پر اعتراضات کے بعد عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نےملک کے  ڈیفالٹ کا خدشہ ظاہر کیا ہے

وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا  متعدد بار یہ دعوی کر چکے ہیں کہ پاکستان اپنی تمام تر بیرونی  ادائگیاں وقت پر ممکن بنائے گا تاہم عالمی سطح پر ان کے اس دعووں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے .

امریکی نشریاتی ادارے  بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق موڈیز کی انالسٹ  کا کہنا تھا کہ ان امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان یہ  پروگرام مکمل نہیں کر پائے گا۔

ماہر معاشیات اور BLINK Capital Management کے چیف ایگزیکٹو  حسن مقصود کا خیال ہے کہ  ڈیفالٹ کا خدشہ موجود تو ہے تاہم حکومت کے پاس فی الحال چند راستے موجود ہیں-

مجوزہ  بجٹ پر عالمی اداروں  کے اعتراضات پر  ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ کا جائزہ لیں تو ٹیکس کلیکشن   کے لیے سارے ایسے اقدامات لے گئے جو پہلے ہی تھے، ان میں کوئی بھی تجویز ایسی نہیں ہے جس سے پتا چلے کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے گا اور آئی ایم ایف کا سب سے بڑا Concern یہی ہے.

BCM کے سربراہ نےکہا کہ ’اس وقت خدشہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ بغیر تکمیل کے  ختم ہو گا کیونکہ وقت بہت  کم ہے۔ انہوں نے کہا  کوئی درمیانی راستہ نکالنا پڑے گا جو اس لیے مشکل ہے کیونکہ اگر نواں جائزہ مکمل نہیں ہو رہا تو نیا پروگرام کیسے مل سکتا ہے ؟

حسن مقصود  کے مطابق عالمی فنڈ  سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی  فنانسنگ کہاں سے ہو گی اور اب تک حکومت کی جانب سے کوئی متبادل پلان  نظر کیوں نہیں آ رہا ؟

انکے خیال میں ایک آپشن یہ ہے کہ  کہ واجب الادا قرضوں کی ری شیڈولنگ کی جائے ۔ اس طریقے میں ایک سال کے قلیل المدتی قرضے کو وقفہ دے  کر تین سال تک کے لیے آگے کیا جا سکتا ہے اور موجودہ حالات میں  یہ  ایک بہتر راستہ ہے۔ اس سےپاکستان کو مسائل سے نمٹنے اور طویل المدتی منصوبہ بندی کیلئے وقت مل جائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ اس کیلئے کوششیں بھی کی جاییں

ARY NEWS کے صحافی اور پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار آصف قریشی کے خیال میں ڈیفالٹ سے بچنے کا ایک طریقہ  کرنٹ اکاوئنٹ ہے۔ اگر حکومت Deficit  سے بچے، درآمدات کو کم رکھا جائے اور برآمدات  کو بڑھانے کی کوشش کی جائے تو وقت حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن  عالمی  سطح پر کساد بازاری کے  حالات میں ایسا ممکن بنانا  ایک الگ  مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا  کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ  سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت  اسی طرح معاشی صورتحال کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی.

جبکہ حسن مقصود کہتے ہیں کہ ان حالات میں ایسا ہونا اس لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ پاکستان رواں سال ELECTIONS کی طرف جانے والا ہے، منتخب حکومت تو ٹھوس اقدامات اور  طویل المدتی منصوبہ بندی کر سکتی ہے لیکن ایسا کرنا کسی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں ہے. اور بظاہر اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کے لئے یہ انتہائی حساس معاملہ ہے کیونکہ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ملک دیوالیہ ہو جائے.

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button