پاکستان میں Agricultural Income Tax اور Super Tax کا نفاذ اور اثرات
IMF Loan Program Review Expected in March 2025

پاکستان میں حالیہ دنوں میں Agricultural Income Tax اور Super Tax کے نفاذ پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ اس کا مقصد ملکی Tax Collection کو بہتر بنانا اور IMF Program کی شرائط کو پورا کرنا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس اقدام کو ملک کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔
Agricultural Income Tax کا پس منظر
پاکستان کے آئین کے مطابق ہر طرح کی آمدن پر ٹیکس عائد کرنا National Assembly کا اختیار ہے. تاہم زرعی آمدن پر ٹیکس کا نفاذ Provincial Matter ہے۔ اس حوالے سے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے قانون سازی کر لی ہے۔
یہ ٹیکس ان افراد پر لاگو ہوگا. جو خود کاشتکاری کرتے ہیں یا اپنی زمین ٹھیکے پر دیتے ہیں۔
Super Tax اور اس کا اطلاق
اس نئے نظام کے تحت Super Tax کا اطلاق زیادہ زرعی آمدن والے افراد پر ہوگا۔ مختلف صوبوں میں زرعی آمدن پر درج ذیل شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے:
- 6 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔
- 12 لاکھ روپے تک آمدن پر 15% ٹیکس عائد ہوگا۔
- 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے تک 90,000 روپے فکسڈ ٹیکس اور اس سے زائد آمدن پر 20% ٹیکس ہوگا۔
- 16 لاکھ سے 32 لاکھ روپے آمدن پر 1,70,000 روپے فکسڈ ٹیکس اور مزید آمدن پر 30% ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
- 32 لاکھ سے 56 لاکھ روپے آمدن پر 6,50,000 روپے ٹیکس ہوگا، اور مزید آمدن پر 40% ٹیکس لگے گا۔
- 56 لاکھ سے زائد آمدن پر 45% Super Tax عائد ہوگا۔
IMF Program اور زرعی ٹیکس
پاکستان کی معیشت IMF Program کے تحت چل رہی ہے. اور Extended Fund Facility (EFF) کے معاہدے کے مطابق زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنا ایک لازمی شرط ہے۔ اس وقت پاکستان کی GDP میں زرعی شعبے کا حصہ تقریباً 20% ہے. لیکن Tax Revenue میں اس کا حصہ 1% سے بھی کم ہے۔
زرعی ٹیکس کی مخالفت
زرعی ماہرین اور کسان اس ٹیکس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
- Sindh Abadgar Board کے صدر محمود نواز شاہ کے مطابق 6 لاکھ سالانہ آمدن پر دی گئی چھوٹ ناکافی ہے. کیونکہ اتنی آمدن سے ایک خاندان کا گزارا بھی مشکل ہے۔
- Pakistan Kissan Ittehad کے چیئرمین خالد حسین باٹھ کے مطابق اس ٹیکس سے کسانوں پر اضافی بوجھ پڑے گا. کیونکہ کھاد، بجلی اور ڈیزل کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔
- Cotton Ginners Forum کے چیئرمین احسان الحق کے مطابق یہ ٹیکس ایسے وقت میں لگایا گیا ہے. جب زرعی شعبہ بحران کا شکار ہے۔
کیا زرعی ٹیکس ضروری ہے؟
ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق زرعی ٹیکس کا نفاذ ناگزیر تھا. کیونکہ دیگر Income Sources سے تو Tax Collection ہو رہی تھی، لیکن زرعی آمدن Tax Free تھی۔
Tax Collection کو بہتر بنانے کے لیے Market Committees, Patwari System اور Government Procurement Agencies کے ذریعے زرعی آمدن کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں Agricultural Income Tax اور Super Tax کے نفاذ کے مثبت اور منفی پہلو موجود ہیں۔ جہاں یہ حکومت کے لیے Revenue Generation میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے. وہیں زرعی شعبے کے لیے مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس کا ایسا نظام بنائے جو Equitable اور Sustainable ہو۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔