پاکستان کو دو بنیادی اہداف حاصل کرنے کی ضرورت. سربراہ آئی ایم ایف

آئی۔ایم۔ایف کی سربراہ کرسٹیلینا جارجیوا نے کہا ہےکہ پاکستان کو دو بنیادی اہداف حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا ٹیکس ریونیو میں اضافہ اور دوسرا دولت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جرمنی کے شہر میونخ میں عالمی معاشی سیکورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں پائے جانیوالے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ IMF غریبوں پر ٹیکس اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ چاہتا ہے۔

کرسٹیلینا جارجیوا نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کے معاشی پروگرام کی بحالی میں سب سے بڑا ڈیڈ لاک یہی ہے کہ وہاں ان افراد پر ٹیکس کی ضرورت ہے جو پرائیویٹ یا پبلک سیکٹر سے اچھی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ اور نچلے طبقے کو سبسڈی دیئے جانے کیلئے قانون سازی کی جانی چاہیئے تاہم وہاں کی حکومتوں کا رویہ اس سے برعکس ہے۔ وہ پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو سبسڈی دینا چاہتے ہیں اور واجب الادا عالمی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے کم آمدنی والے طبقے سے ریونیو اکھٹا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں ہمیشہ سبسڈی اس انداز میں دی گئی کہ کم آمدنی والے طبقے کو بہت کم فائدہ پہنچا اور اشرافیہ کو بالواسطہ طور پر نوازا گیا۔

پاکستان کے موضوع پر مفصل انداز میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غریب افراد کو تحفظ اور ان تک سبسڈیز کے براہ راست فوائد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ‘تیسری دنیا کا یہ ملک اسوقت شدید بحران کا شکار ہے اور عالمی اداروں سے امداد کا خواستگار ہے۔ کوئی بھی ملک اس حد تک خطرناک نہج پر نہیں پہنچ سکتا کہ قرضوں کو مسلسل ری-شیڈول کرنا پڑے”۔ انکا کہنا تھا کہ "پاکستانی عوام سیلاب اور قدرتی آفات کی وجہ سے شدید مشکلات کے شکار ہیں لیکن حکمران طبقہ انہیں سے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کے لئے قانون سازی میں مصروف ہے۔ لیکن عالمی دنیا سے مدد طلب کرنے سے پہلے اس سے پہلے انہیں بطور ریاست منصفانہ اقدامات کی ضرورت ہے”

واضح رہے کہ پاکستان کے ساتھ 14 روز پر محیط مذاکرات کے بعد ابھی بھی ڈیڈ لاک برقرار ہے اور شرائط پوری کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسز پر مشتمل منی بجٹ بھی پیش کر دیا ہے۔ نیز پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ تاہم اسکے باوجود دونوں جانب سے اہم امور پر اب بھی تعطل برقرار ہے جس کی وجہ سے ملک کے معاشی اعشاریے (Financial Indicators) منفی منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران KSE100 انڈیکس میں 12 سو سے زائد پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی اور 12 ارب روپے سے زائد سرمائے کا انخلاء ریکارڈ کیا گیا۔ سرمایہ کار بے یقینی اور عدم تحفظ کے شکار ہیں۔ اس عرصے کے دوران مارکیٹ شیئر والیوم میں معمول سے 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button