ٹویوٹا کا آپریشنز ختم کرنے کا فیصلہ ، کیا پاکستان کا آٹو موبیل سیکٹر بند ہو رہا ہے؟
ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے سرمائے کا انخلاء جاری
ٹویوٹا نے پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنیکا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک میں اپنا کاروبار بند کرنیوالی یہ تیسری بڑی کمپنی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل قیام پاکستان کے بعد سے ملک میں کام کرنیوالی پہلی غیر ملکی برٹش آئل اینڈ گیس کمپنی شیل اور ٹیلی نار بھی مالی مشکلات اور سرمائے کی منتقلی پر عائد سخت ترین پابندیوں کے باعث پاکستان میں اپنے شیئرز فروخت کر چکی ہیں۔
ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کیوں چھوڑ رہی ہیں ؟
سنگین مالی بحران کا شکار پاکستان بین الاقوامی کاروباری اداروں کیلئے اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اسکی سب سے بڑی وجہ گیارہ ماہ قبل درآمدات (Imports) پر عائد کی جانیوالی پابندیاں ہیں۔
ٹویوٹا اور پاک انڈس موٹرز کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ پاکستان آٹو موبیل سیکٹر کیلئے دنیا کی دیگر کمپنیوں کی طرح اہم پارٹس چین، امریکہ اور یورپی یونین سے درآمد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے باعث جب تجارتی بینکوں نے ایل۔سیز بند کر دیں تو اس کے ساتھ ہی ملک میں کام کرنیوالا Auto Mobile سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
اس کا آغاز ٹریکٹر ساز کمپنیوں کے پلانٹس بند ہونے سے ہوا۔ جسکے بعد پاک سوزوکی جو کہ جاپانی اشتراک کے ساتھ جنوبی ایشیائی ملک میں ایک طویل عرصے سے اپنی اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے تھا نے اپنے مارکیٹ شیئرز محدود کر دیئے اور زیادہ تر اسٹاف ٹوکیو منتقل کر دیا۔
ایگری ٹیک کمپنی ملت ٹریکٹرز پاکستان سے ڈھاکہ منتقل ہونیوالی تیسری بڑی کمپنی ہے۔ اسکا مارکیٹ شیئر 2 ارب ڈالرز بنتا یے۔ جبکہ ملک بھر میں ہزاروں افراد کا روزگار اس کے ساتھ منسلک تھا۔ اس کی بندش بھی پارٹس کی عدم دستیابی، بھاری ٹیکسز کا نفاذ اور منافع کی بیرون ملک منتقلی میں حائل مشکلات تھیں۔ ملت ٹریکٹر پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) میں بھی بطور پبلک لیمیٹڈ کمپنی رجسٹرڈ تھی۔ اس کے دو روز بعد KSB Pumps نے بھی پنے 20 ہزار ملازمین کو ملازمت سے برطرفی کا نوٹس تھماتے ہوئے ملک چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
ٹویوٹا کا پاکستانی معیشت میں کردار
ٹویوٹا نے پاکستان میں اپنے پہلے یونٹ کا آغاز 1989 میں کیا۔ یہ اسوقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی کوششوں سے پاکستان آنیوالی دوسری ملٹی نیشنل کمپنی تھی جس کا اصل وطن سوزوکی کی طرح جاپان تھا۔ لیکن ایسا بہت کم لوگ جانتے تھے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی خود بھی پاکستانی معیشت کی پہچان اور معاشرے کا اہم حصہ بن گئی تھی۔ اسکی کاروں میں ٹویوٹا، اور Yaris جبکہ لائٹ اور کمرشل وہیکلز میں Hilux اور Fortuner مقبول ترین برینڈز تصور کئے جاتے ہیں۔
اسکے ساتھ 3 ہزار پاکستانی انجینئرز اور پروفیشنلز منسلک ہیں اور اسکا شمار کارپوریٹ سیکٹر کی ان کمپنیوں میں کیا جاتا ہے جن میں ملازمت کا موقع ملنے کو نوجوان طبقے میں ایک اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ کراچی پورٹ قاسم میں اسکا سائٹ ایریا 109 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان میں ملٹی نیشنل اداروں کو درپیش مسائل
سوزوکی، ملت ٹریکٹرز، بیلارس، کسب پمپس، شیل گلوبل اور ٹیلی نار کے بعد پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرنیوالی تمام کمپنیوں کا پاکستانی حکام سے ایک ہی شکوہ ہے۔ کہ انہوں نے اس ملک کو سرمایہ اور روزگار کے مواقع دیئے لیکن بھاری ٹیکسز کی ادائیگی کے باوجود حکومت نے ان کے مسائل کی کبھی شنوائی نہیں کی۔
ان بڑے اداروں کے بند ہونے سے پاکستان کی Foreign Investment حاصل کرنے کی کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اتنے طویل عرصے تک کام کرنیوالی کمپنیاں نئی کمپنیوں کیلئے ایک گرین سگنل ہوتی ہیں کہ یہ ملک غیر ملکی کمپنیوں کیلئے محفوظ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے IMF پروگرام بین الاقوامی فنڈز حاصل کرنے کے لئے ایک لائسنس یا ٹریڈ مارک ہوتا ہے۔ انکا انخلاء نئی کمپنیوں کے لئے ایک سوالیہ نشان اور عدم تحفظ کی علامت بن جاتا ہے۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔