امریکی ڈیبٹ کرائسز کیا ہے اور یہ عالمی مارکیٹ پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے ؟

امریکی ڈیبٹ کرائسز کے حوالے سے رواں ہفتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی کانگریس نے اگر Debit Ceiling میں اضافہ نہ کیا تو یکم جون تک امریکہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔

امریکی ڈیبٹ کرائسز کیا ہے اور یہ کیسے پیدا ہوا ؟

U.S Debit Ceiling بنیادی طور پر امریکی حکومت کیلئے قرض کی حد مقرر کرنے کا تنازعہ ہے۔ یوکرائن پر روسی حملے اور تائیوان میں چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ دونوں ممالک کو دفاعی امداد کی مد میں کھربوں ڈالرز  جاری کر چکی ہے۔ جس کی منظوری صدر امریکہ جو بائیڈن نے اپنےخصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے دی۔ تاہم اس کے بعد ان کی حکومت حکومت سنگین معاشی خطرے کا شکار ہو گئی ہے۔

 

حکومت کو فیڈرل ریزرو سے قرض کے حصول میں دشواری کا سامنا ہے جسکی ایک حد مقرر ہے جو کہ ختم ہو چکی ہے۔ اور اس سے سے زائد فنڈز حاصل کرنے کے لئے امریکی سینیٹ کا اپروول درکار ہے، جہاں حریف جماعت ریپبلیکن کی اکثریت ہے۔ جو اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر کے حکومت کو بند گلی کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ جس کا اختتام دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت کے ڈیفالٹ پر ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ جون کے اوائل میں امریکی حکومت اہنی قانونی حد کو چھو لے گی۔ جس کا مطلب ہے کہ جینیٹ ییلین کی Federal Treasury یعنی وزارت خزانہ اضافی فنڈز حاصل نہیں کر پائے گی۔ اس کے بعد یہ مالیاتی بحران اس حد تک شدید ہو جائے گا کہ امریکی حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوں گے کہ وہ موجودہ قرض کی ادائیگی کر سکے اور ملازمین کو تنخواہیں۔ پینشنز اور سوشل بینیفٹس فنڈز کے پیسے ادا کر سکے۔ ان کے علاوہ سرکاری بلز کی ادائیگی بھی نہیں ہو پائے گی۔

 

ایوان نمائندگان یعنی کانگریس کسی بھی وقت فنڈز ریلیز کر سکتی ہے لیکن ریپبلکن اراکین صرف اسی صورت میں ایسا کریں گے جب وہ بائیڈن انتظامیہ سے اس کے بدلے میں مراعات حاصل کر لیں۔ ادھر جو بائیڈن اور انکی سرکاری مشینری نے یہ کہہ کر مذاکرات سے انکار کر دیا تھا کہ وہ کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔

ادائیگیوں کی تاریخ قریب آنے پر اب وہ خود میدان عمل میں آئے ہیں اور گذشتہ منگل کے بے نتیجہ ڈائیلاگ کے بعد 16 مئی کو مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ ہو گا۔ تاہم معاشی ماہرین ان کی کامیابی کیلئے زیادہ پرامید دکھائی نہیں دے رہے۔

قرض کی حد کا تاریخی پس منظر

یہ حد پہلی بار 1917ء میں متعارف کروائی گئی۔ جس کا بنیادی مقصد عالمی جنگ کے دوران اس وقت کی امریکی حکومت کو ہنگامی حالات کے لئے فنڈز کے اجراء کا قانونی طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ امریکی آئین معاشی بیل آؤٹ پیکیج کا اختیار کانگریس کو دیتا ہے جو ریاستی اداروں میں بالادست ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اور اسکے فیصلے کو امریکی سپریم کورٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔

2011ء میں بھی اسی نوعیت کی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ تب سابق صدر جو بائیڈن نے ممبران سینیٹ کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد مستقبل میں حکومتی اخراجات 900 بلیئن ڈالرز سالانہ تک کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد کانگریس نے کریڈٹ سیلنگ میں بھی 900 ارب ڈالرز کا اضافہ کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ اسوقت صورتحال اس لحاظ سے مختلف ہے کہ سینیٹ میں ریپبلیکن اراکین مساوی تعداد م8ں موجود ہیں جو اس پیکیج کو بآسانی روک سکتے ہیں۔

معاملہ کیا رخ اختیار کر سکتا ہے ؟

ڈیبٹ لمٹ ایک حساس معاملہ ہے۔ جس پر بائیڈن انتظامیہ سیاست نہیں چاہتی۔ ڈیمو کریٹس نے کبھی ڈیفالٹ ہونے کے آپشن پر مشاورت بھی نہیں کی۔ تاہم اپنے ادوار میں ریپبلیکن پارٹی کئی بار ایسی دھمکیاں دے چکی ہے اور جب وہ حکومت میں نہیں بھی ہوتے تب بھی اس مسئلے کا پولیٹیکل ایڈوانٹیج حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور بدقسمتی سے اس بار بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ خاص طور پر جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنسی ہراسانی کے مقدمے کا سامنا ہے۔

 مرکزی حکومت دیوالیہ ہونے سے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ؟

ڈیفالٹ کرنے سے امریکہ بطور سپر پاور اپنی ساکھ کھو دے گا۔ عالمی فائنانشل مارکیٹس (Global Financial Markets) طویل المدتی بنیادوں پر مندی کی شکار ہو سکتی ہیں۔ اور امریکی ڈالر بطور بارٹر کرنسی زوال پذیر ہونے کا بھی امکان ہے۔ جس کے بعد امریکی لیبر مارکیٹ بھی شدید دباؤ میں آ جائے گی۔ جس سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی مارکیٹس میں سرمایہ کار محتاط انداز اپنائے ہوئے ہیں اور معاشی سرگرمیوں کی رینج خاصی محدود ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button