افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر Processing Fee عائد ہونے سے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ؟

افغان مہاجرین کی بے دخلی پر دونوں جانب سخت کشیدگی کا ماحوال نظر آ رہا ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پروسیسنگ فیس عائد کر دی گئی۔ وفاقی حکومت کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں ہمسایہ ملک سے درآمد کردہ تمام اشیاء پر 10 فیصد ٹیکسز لاگو کئے گئے ہیں۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر سخت پابندیوں کا پس منظر۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو دو برس سے زائد کا عرصہ گذر گیا۔ اس دوران انکے اقتدار کو دنیا کے کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان ، چین ، روس اور قطر نے اگرچہ اس غیر منتخب حکومت کا بائیکاٹ نہیں کیا ۔لیکن ان کے اپنے سفارتی تعلقات خاصے محدود ہیں اور ان میں امارت اسلامی کی خواتین کے بارے میں رویے اور پالیسی کے باعث سرد مہری کا عنصر نمایاں ہے۔

اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر سخت شرعی سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ جن میں سرعام کوڑے مارے جانے سے لے کر سر قلم کرنا بھی شامل ہے۔

ان اقدامات کو اقوام متحدہ اور مہذب دنیا نہ صرف تشویش کی نظرسے دیکھ رہے ہیں بلکہ عالمی برادری نے جنوب مغربی ایشیائی ملک کے 6 ارب ڈالرز کے قریب فنڈز منجمند کر کے عالمی ترسیل زر کے نظام Swift سے بھی نکال دیا ہے۔

پاکستان عالمی تجارت میں افغانستان کا واحد سہارا.

ایسے حالات میں افغانستان  پاکستانی اوپن مارکیٹ اور بینکنگ سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔ ان کی 80 فیصد تجارت پاکستان کے ساتھ زمینی راستے سے ہوتی ہے۔ جسے Pak Afghan Transit trade کا نام دیا جاتا ہے۔

دونوں ممالک کی باہمی تاریخ دوستی اور دشمنی کا ایک ایسا امتزاج ہے جسکا عکس ہمیں عہد جدید میں بھی انکی پالیسیوں میں نظر آتا ہے۔ پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کا اکٹریتی علاقہ پشتون قبائل پر مشتمل ہے اور انکی آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک لاکھ افراد افغانستان سے سرحد پار کر کے پاکستان آتے ہیں اور یہاں اوپن مارکیٹ سے ایک ہزار ڈالر فی کس اپنے ہمراہ افغانستان لے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ غیر ملکی زرمبادلہ قانونی طریقے سے ہی ہمسایہ ملک منتقل ہوتا ہے۔ لیکن منظم انداز میں کیا جانیوالا یہ عمل پاکستانی مالیاتی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔

پاکستانی حکومت اور عسکری اداروں کی کاروائیاں۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر عائد کی جانیوالی ان پابندیوں پر طالبان انتظامیہ نے شدید احتجاج کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے دہشت گردی پر مبنی کاروائیوں اور ان میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شواہد کی بناء پر افغان مہاجرین کے خلاف وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے اور اس معاملے پر سرحد کے دونوں طرف سرمہری اپنے عروج پر ہے۔

افغان مہاجرین کی بے دخلی کے احکامات.

پاکستان حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین واپس چلے جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ 70 کی دہائی کے آخر میں سوویت یونین کی طرف سے روس پر حملے کے بعد 20 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ اسکے بعد بدقسمتی سے امن قائم نہ ہونے کے باعث تقریبا اتنے مہاجرین ہی غیر قانونی طریقے سے مختلف اوقات میں خیبر پختونخواہ اور اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں آباد ہوئے۔

اب ان کی تیسری نسل بھی یہاں پروان چڑھ رہی ہے۔ پشاور اور وفاقی دارلحکومت کی کرنسی مارکیٹ پر انکا مکمل کنٹرول ہے اور ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ میں بھی یہی کمیونٹی ملوث پائی گئی ہے۔چنانچہ حالیہ عرصے کے دوران مقتدر حلقوں کی جانب سے اس ضمن میں موثر کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ردعمل کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ ترین لہر اسی کا شاخسانہ ہے۔

پاک افغان تجارت کا حجم۔

سخت پابندیوں کے باعث ابھی تک اس ٹریڈ کا حجم 14 سو ملیئن ڈالرز تک محدود ہے۔ افغانستان یہاں سے مشینری ، نمک ، تانبا اور ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان کی درآمدات میں خشک میوہ جات ، پھل ، سبزیاں اور کوئلہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں وسطی ایشیا سے بذریعہ افغانستان بھی پاکستانی تجارت 500 ملیئن ڈالرز کے قریب ہے۔

دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات کتنے گہرے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ افغان کمپنیوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے .

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر Processing Fee عائد ہونے سے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ؟

جو اس لحاظ سے معیشت کیلئے اہم ہے کہ زمینی راستے سے ہونیوالی اس نقل و حمل میں ایک تو وقت بہت کم لگتا ہے ۔ اور دوسرا ان کے Trade Bills مقامی کرنسیوں میں کلیئر کئے جاتے ہیں ۔ یعنی ڈالر کی قلت کے شکار پاکستان کو ادائیگیوں کیلئے ایل ۔سی یا بینکنگ سسٹم کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے علاوہ تجارتی حجم میں 20 گنا اضافے کی گنجائش موجود ہے۔

بھارت کا وسطی ایشیاء کے ساتھ سالانہ تجارتی حجم 80 ارب ڈالرز سے زائد ہے جبکہ بین الاقوامی روٹ اور سمندری راستے سے اشیاء کی منتقلی میں 20 دن لگتے ہیں۔ تاہم ازبکستان اور ترکمانستان سے افغانستان کے راستے پشاور اور اسلام آباد تک صرف تین دن لگتے ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے ٹرانزٹ ٹریڈ کی پاکستان کے لئے افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی ایسے معاملات ہیں جو کہ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تجارت کو ریگولرائز کیا جائے تا کہ اس سے ڈگمگاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔ صدیوں سے استعمال ہونیوالا سلک روٹ آج بھی برآمدی حجم میں اضافہ کر کے پاکستان کے Trade Deficit کو ختم کر سکتا ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button