Middle East کی صورتحال کس طرح سے عالمی معیشت کو بحران میں مبتلا کر رہی ہے.

Veto from United States to Ceasefire Resolution faded the hopes for dialogue and peace.

Middle East War شروع ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں . ابھی تک مستقل Ceasefire کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے.  وقت گزرنے کے ساتھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ Gulf Region کے ممالک بالخصوص Saudi Arabia عالمی برادری اور United States کے کردار سے مایوس ہو گئے ہیں .

Arab Israel تنازعے کا پس منظر.

دو روز قبل United Arab Emirates کی طرف سے جنگ بندی کی قرار داد کی جہاں Russia اور China سمیت تمام طاقتور ممالک نے حمایت کی ، وہیں UN Security Council میں امریکی مندوب کی جانب سے Veto کے استمعال نے ایک مرتبہ پھر امن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا.

خیال رہے کہ UAE اور Bahrain ان ممالک میں سے ہیں جنہوں نے 15 ستمبر 2020 کو Abraham Accord کے تحت صیہونی ریاست کو نہ صرف تسلیم کر لیا تھا بلکہ ان کے  Tel Aviv کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات بھی استوار ہو چکے ہیں . لیکن طوالت اختیار کرتی ہوئی جنگ سے ان ممالک کے حکمران خاصی مشکلات اور الجھنوں کے شکار ہو رہے ہیں . کیونکہ ان ریاستوں کے عوام  Palestine کے زخموں میں نفسیاتی طور پر جھکڑے ہوئے ہیں .

Global Markets کے سرمایہ کار  انتہائی محتاط انداز اختیار کئے ہوئے ہیں بالخصوص Crude Oil کی رسد کا توازن غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے . درحقیقت مشرق وسطیٰ سے اٹھنے والی چنگاریاں کسی بھی وقت پوری Global Economy کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ، یہی وہ رسک فیکٹر ہے جس سے Energy Companies کی شیئر والے گراوٹ کی شکار ہو رہی ہے .

۔ یوں تو یہ معاملہ 8 عشرے پرانا ہے اور اس کی تاریخ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی یورپ سے جبری بے دخلی اور پھر عربوں کے دل فلسطین میں آباد کاری سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم تاریخی اعتبار سے دنیا کے تینوں ابراہیمی مذاہب اس مقدس سرزمین کی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔

Middle East Crisis کے معاشی اثرات.

دنیا ابھی Ukraine پر ہونیوالے روسی حملے کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی اور Recession عالمی معیشت پر پنجے گاڑتی ہوئی مالیاتی نظام کو کھوکھلا کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ 7 اکتوبر کو Gaza اور Eastern Jerusalem پر اسرائیلی کاروائیوں کے جواب میں فلسطینی تنظیم Hamas کی طرف سے 7 ہزار راکٹس لانچ کئے جانے سے ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا۔

واضح رہے کہ فلسطین کا المیہ ایک ایسا رستا ہوا زخم ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر جھکڑے ہوئے ہے۔ مظلوم اور نہتے عربوں ہر دنیا کی سب سے بڑی اور جدید ترین اسلحے سے لیس صیہونی افواج کی طرف سے تمام تر اخلاقی اور انسانی قدروں کی دھجیاں بکھیرتے مناظر انتقام کی لہر پیدا کرتے ہیں۔

اس معاملے پر اقوام عالم کی ڈھٹائی اور بے حسی سے اسلامی دنیا اور مغرب سمندر کے ان دو کناروں کی طرح بن چکے ہیں جو کہیں مل نہیں سکتے۔ عرب دنیا Crude Oil کی دولت سے مالا مال خطہ ہے۔ Saudi Arabia کی زیر سرپرستی OPEC ممالک Oil کی عالمی رسد کا نصف مہیا کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں Egypt کی Suez Canal اور Europe کی دہلیز پر دو براعظموں پر محیط Turkey کی آبنائے باسفورس Global Trade کا 80 فیصد کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر یہ دونوں راستے بند کر دیئے جائیں تو یورپی ممالک چند ہفتوں میں دیوالیہ ہو جائیں گے۔ یوکرین اور روس عالمی رسد کا صرف 20  فیصد کنٹرول کرتے ہیں اور اسکے اثرات سے ابھی تک Global Economy باہر نہیں آ سکی . لیکن عرب ممالک اور دنیا کی ترھویں بڑی معیشت Turkey جو کہ اس معاملے میں اہم فریق کے طور پر سامنے آیا ہے مل ک طاقتور ممالک کو دیوالیہ کر سکتا ہے.

Middle East War: تشدد کی حالیہ لہر کیسے شروع ہوئی۔؟

7 اکتوبر کو  حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کے بعد صیہونی ریاستی کے  Gaza پر حملوں اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام Al-Quds میں دوران نماز کریک ڈاؤن کے بعد تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔Israeli Airforce اور Army کی  کاروائیوں میں 19 ہزار فلسطینی جان بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی حدود میں فلسطینیوں کی طرف سے حملوں میں اب تک 13 سو سے زیادہ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے .

Hamas کے جنگجو راکٹ حملے کے بعد پھیلنے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بحری اور زمینی راستوں سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے اور اہم ترین بندر گاہ حیفہ سمیت کی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا . اسرائیلی حکومت کے کسی دفاعی کوشش سے پہلے اسکی کی چیک پوسٹس تباہ اور سینکڑوں فوجی اہلکار قیدی بنائے جا چکے تھے .

مغربی میڈیا کے مطابق یہ اسرائیل پر اسی انداز کا حملہ ہے جیسا کہ Second World War کےدوران Pearl Harbour پر جاپان کی طرف سے کیا گیا تھا . اور اسکا انجام ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کی صورت میں برامد ہوئے تھے .

Turkey اور عرب دنیا کا ردعمل.

United Nations کی Security Council میں Isarel کے ساتھ گہرے روابط استوار کرنے والے عرب ملک متحدہ عرب امارات کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی  قرار داد امریکی ویٹو کے استمعال سے ناکامی سے دوچار ہو گئی . جس کے بعد عرب اور اسلامی دنیا بالخصوص Iran ، Saudi Arab اور Turkey کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے .

Saudi Crown Prince شہزادہ محمّد بن سلمان جو اپنی جدید اصلاحات اور روشن خیالی  کے حوالے سے مغربی دنیا میں خاصے مقبول ہیں .   نے امریکی ٹیلی ویژن CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "دنیا عرب دنیا کے زخموں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ، اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے.”

Irani Supreme Leader آیت الله علی الخامنی نے اپنے بیان میں کہا کہ "دنیا کے سامنے صیہونی ریاست کے سرپرست اپنے رویے سے بےنقاب ہو گئے ہیں”

سب سے شدید ردعمل مغربی اتحاد Nato میں شامل سیکولر آئیں رکھنے والے ملک Turkey کے صدر رجب طیب اردوگان کی طرف سے آیا ، انہوں نے نہ صرف فلسطینیوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ برتے جانے والے دوہرے معیار اور Genocide کو کبھی نہیں بھولیں گے ، بلکہ United States کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  نسل کشی کے مرتکب Israel اور اسکے سرپرست ممالک کو International Court of Justice میں گھسیٹا جائیگا .  ترک صدر  نے United Nations پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسے بند کر دینا چاہئے.

White House کا موقف

گذشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن  نے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ اسے دفاع کر بھرپور حق ہے اور امریکہ سمیت تمام اتحادی ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ پریس ریلیز میں ایک مرتبہ پھر  اسرائیلی موقف کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ۔ دوسری طرف نہتے فلسطینیوں کے حمائت میں China اور Russia بھی کھل کر سامنے آئے ہیں۔

کیا فلسطین اسرائیل جنگ ایک نئے عالمی معاشی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ؟

 

گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ دونوں ممالک ایران ، ترکی اور عرب دنیا کے اہم اتحادی بن کر سامنے آئے ہیں . اگر انکا موقف اس معاملے میں بھی یہی رہا تو عالمی سطح پر بڑے بحران کا اندیشہ ہے . جس کے نہ صرف معاشرتی بلکہ معاشی پہلو بھی انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں . 

عالمی مارکیٹس میں کیا صورتحال ہے.؟

عالمی مارکیٹس کے ٹریڈرز مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ اور Ukraine War کے بعد  عالمی معاشی بحران  کے پیش نظر سائیڈ لائن ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے سیشنز میں ٹریڈنگ والیوم معمول سے کم ہے۔ Saudi Arab اور دیگر خلیجی ممالک دنیا میں Crude Oil کی پیداوار کا نصف حصّہ مہیا کرتے ہیں . اگر یہ جھگڑا طوالت اختیار کر گیا . تو عرب ممالک 1973 کی  طرح Oil as a Weapon کے طور پر بھی استمعال کر سکتے ہیں . مارکیٹس میں یہ رسک فیکٹر بھی مارکیٹس کو غیر یقینی صورتحال کی طرف دھکیل رہا ہے  .

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button