نئے عالمی معاشی بحران کا آغاز
( ریسرچ آرٹیکل) نئے عالمی معاشی بحران Global economic crisis کا آغاز۔۔۔۔ یوکرائن پر روسی حملے کے بعد سے امریکہ، یورپ اور ایشیاء کی بڑی معیشتیں اس وقت ایک سنگین بحران سے دوچار ہیں۔ ایک طرف مغربی دنیا کی طرف سے روس پر آئے روز نئی پابندیوں کے اعلانات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی سیاست ایک بار پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونیوالی سرد جنگ کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بظاہر مضبوط نظر آنیوالی امریکی معیشت کساد بازاری کے جن خطرات کا سامنا کر رہی ہے اس کی چند جھلکیاں تو امریکی سنٹرل بینک کی طرف سے ریزروز پر تاریخ میں پہلی بار 25 بیسک پوائنٹس شرح سود میں اضافے کے اعلان اور بےقابو ہوتی ہوئی بیروزگاری کی شرح اور توانائی کا ایک نیا بحران ۔
ان سب میں سے کوئی بھی حوصلہ افزاء خبر نہیں ہے۔ جرمن ڈوئچے بینک نے اپنی رپورٹ میں عالمی معیشت کے بحران کو دوسری جنگ عظیم سے زیادہ سنگین قرار دیا ہے اور پیشگوئی کی ہے کہ امریکہ کو آنے والے دنوں میں کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگرچہ اسوقت شرح سود میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن Global economic crisis معاشی بحران کی گہرائی اندازوں سے کہیں زیادہ ہے ۔ ڈوئچے بینک کی رپورٹ کے مطابق روس پر بے تحاشہ پابندیوں کے نتیجے میں عالمی معیشت ایک دلدل میں دھنستی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں عالمی نظام معیشت شائد ایک لمبے عرصے تک بحران سے نہ نکل سکے۔ بینک کے مطابق اگر روس نے یورپ اور عالمی مارکیٹ کو گیس کی سپلائی مکمل طور پر منقطع کر دی تو دنیا توانائی کے ایسے بحران کا شکار ہو جائے گی جس سے کسی بھی ملک کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے ۔ خاص طور پر یورپ جو کہ آج خودساختہ اعلانات کے بعد بند گلی میں کھڑا ہے ۔
ڈوئچے بینک نے خبردار کیا کہ مذاکرات کے بغیر ہی پابندیاں عائد کرتے چلے جانا خود یورپی یونین کے اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔اطالوی سنٹرل بینک نے بھی یورپی یونین کو مشورہ دیا ہے کہ روس کی طرف سے سخت ردعمل آنے سے پہلے مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے اور مصنوعی طریقوں سے بحران کو دبایا نہ جائے ورنہ عالمی معیشت دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بڑے اور سنگین حالات کا سامنا کر سکتی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اومیکرون پر قابو پانے کی ضد میں چین کی اپنے ہی ملک پر سخت پابندیاں چینی معیشت کو بھی اسی بند گلی میں پہنچا سکتی ہیں جس میں یورپ اور امریکہ کی معیشتیں کھڑی ہیں۔ اسوقت یورپ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور چین کی معیشتیں عالمی اقتصادی بحران کے دروازے پر کھڑی ہیں ، دنیا بھر میں افراط زر اور بیروزگاری کی شرح الارمنگ دوہرے ہندسوں میں داخل ہو گئے ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق فیڈ نے امریکی افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت لمبا عرصہ انتظار کیا لیکن بلند شرح سود اور ڈالر کے بلند ریزرو ریٹس سے آجر اور ادارے اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے ملازمین نکال سکتی ہیں جس سے عالمی معیشت مزید سست روی کا شکار ہو سکتی ہے۔
روس کو عالمی معیشت سے نکالنے کے عمل نے ایک ایسا خلاء پیدا کر دیا ہے ۔ جسے شائد جلد پورا نہ کیا جا سکے ۔ آپ دنیا کے ایک تہائی رقبے کو عالمی دنیا سے کیسے کاٹ سکتے ہیں ۔ جرمن اور اٹالیئن سنٹرل بینکس عالمی معاشی بحران Global economic crisis کی سنگینی کی طرف جو اشارہ کر رہے ہیں وہ کسی بھی یورپی ادارے کا پہلا حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ گولڈ مین سکس کے مطابق اس سال کے آخر تک بیروزگاری اور افراط زر پینتیس فیصد تک پہنچ کر ایک عفریت کا روپ دھار سکتے ہیں جس کے نتیجے میں عالمی معیشتیں دیوالیہ ہو سکتی ہیں ۔ بینک کے مطابق جنگ، افراط زر، گیس اور کورونا ان چاروں نے مل کر عالمی معیشت کو جن سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے اس سے نمٹنے کے لئے تمام عالمی معاشی طاقتوں اور اداروں کو مل کر کام کرنے ضرورت ہے ۔ انفرادی طور پر بلند شرح سود اور خودساختہ پابندیاں عالمی معاشی مسائل میں مزید اضافہ کریں گی اور موجودہ صورتحال پوری دنیا کے لئے ایک اقتصادی ریڈ الرٹ ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی ملک انفرادی طور پر نہیں نکل سکے گا۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔