امریکی اسٹاکس میں دن کا مثبت اختتام، US CPI کے اثرات
S&P500 آج 17 ماہ کی بلند ترین سطح پر آ گیا۔
امریکی اسٹاکس میں کاروباری دن کا اختتام تیزی کے رجحان پر ہوا ہے۔ US CPI کے توقعات سے زیادہ مثبت اعداد و شمار ریلیز ہونے کے بعد Wall Street کے ٹریڈنگ فلور پر سرمایہ کار متحرک دکھائی دیئے۔
US CPI کی تفصیلات
گذشتہ روز ریلیز کئے جانیوالی US CPI Report میں یوکرائن پر روسی حملے کے بعد پہلی بار Headline Inflation کی سطح 3 فیصد پر آ گئی۔ جبکہ Core Inflation بھی ایک سال سے زائد عرصے کے بعد 4 فیصد سالانہ پر ریکارڈ کی گئی۔ ڈیٹا سے امریکی ڈالر انڈیکس کوئی سپورٹ حاصل نہ کرتے ہوئے بدترین گراوٹ کا شکار ہوا۔ جبکہ 10 سالہ مدت کی US Bonds Yields میں بھی کمی نوٹ کی گئی۔
تمام توقعات کو مات دیتے ہوئے افراط زر کی یہ ریڈنگ امریکی معیشت اور لیبر مارکیٹ پر دباؤ میں کمی کو ظاہر کر رہی ہے۔ ڈیٹا کا سب سے مثبت پہلو فوڈ اینڈ انرجی آئٹمز کی قیمتوں میں ماہانہ سطح پر 1 فیصد سے زائد کمی کا ہونا ہے۔ جبکہ دیگر نمام شعبوں کے کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) میں بھی کمی واقع ہوئی۔
ماہانہ افراط زر ےا 0.2 فیصد پر محدود ہو جانے سے کساد بازاری (Recession) کا رسک فیکٹر بڑی حد تک ختم ہو گیا۔ تاہم لیبر مارکیٹ پر اسکے حقیقی اثرات کا اندازہ رواں ہفتے کے U.S Jobless Claims سے کیا جا سکے گا۔
مثبت رپورٹ سے امریکی ڈالر پر منفی اور امریکی اسٹاکس ہر مثبت اثرات کیوں مرتب ہوئے ؟
رہورٹ سے قبل سرمایہ کار محتاط انداز اختیار کئے ہوئے تھے کیونکہ رواں جاری ہونیوالے تمام ہائی پروفائل ڈیٹا میں افراط زر کی صورتحال غیر واضح تھی اور مارکیٹ میں مثبت اعداد و شمار کو بھی کساد بازاری کی علامات سمجھا جا رہا تھا۔ ایسے میں امریکی فیڈرل ریزرو کی طرف سے بھی Rates Hike Program جاری رکھے جانے کی پیشگوئیاں کی جا رہی تھیں۔ تاہم گذشتہ روز جاری ہونیوالی رپورٹ سے معاشی منظر نامہ واضح ہو گیا ہے
اگرچہ FOMC کی میٹنگ میں 25 بنیادی پوائنٹس کے پالیسی ریٹس کے امکانات ختم نہیں ہوئے تاہم طویل المدتی بنیادوں پر سخت مانیٹری پالیسی کا جواز باقی نہیں رہا۔ اسی پہلو نے اسٹاکس، کماڈٹیز اور ڈالر کے مقابلے میں دیگر تمام کرنسیز کے سرمایہ کاروں کو متحرک کر دیا۔ اور امریکی ڈالر کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔
گلوبل ٹیکناکوجی اسٹاکس کے حوالے سے ایک اور بڑی خبر گذشتہ روز Tesla اور Space X کے بعد اب سوشل میڈیا پلیٹ فارم Twitter کے بھی مالک ایلون مسک کی چینی صدر ژی جن پنگ سے ہونیوالی ملاقات ہے۔ جسے ایشیائی طاقت کو Smart Chips پر عائد ہونیوالی ہابندیوں کے تناظر میں انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس میں مسک اور چینی راہنما کے درمیان Artificial Intelligence میں تعاون پر گفت و شنید ہوئی ہے۔
ذرائع کے مطابق مسک اہنی نئی کمپنی XAL میں چینی شراکت داری کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں سیکرٹری آف اسٹیٹ اور خزانہ کی طرف سے بیجنگ آمد کے یہ کسی امریکی شخصیت کا تیسرا اہم ترین دورہ ہے جسے باضابطہ مذاکرات کے بعد بیک چینل ڈپلومیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ عالمی ماہرین دو بڑی عالمی طاقتوں کے درمیان کئی برسوں سے جمی ہوئی برف پگھلنے کو عالمی معیشت اور استحکام رسد کے لئے ایک مثبت ٹریگر کے طور پر لے رہے ہیں۔
اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ امریکی ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور صورتحال کو ایک نئی Cold War کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ Global Stock میں ان خبروں سے سرمایہ کاری کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اثرات آنیوالے دنوں میں بھی نظر آتے رہیں گے۔
مارکیٹ کی صورتحال
Dow Jones Industrial Average میں کاروباری دن کا اختتام 86 پوائنٹس کے اضافے سے 34347 کی سطح پر ہوا۔ Composite Index کی کم ترین سطح 34308 رہی جبکہ دوران ٹریڈ امریکی بینچ مارک 34586 کے بلند ترین انٹر ڈے لیول پر ٹریڈ کرتا ہوا دکھائی دیا۔ مارکیٹ میں 33 کروڑ سے زائد شیئرز کا لین دین ہوا۔
Nasdaq کے ٹیکنالوجی سیکٹر میں زبردست خریداری ہوئی جس سے انڈیکس میں معاشی سرگرمیوں کا اختتام 158 پوائنٹس کے اضافے سے 13918 پر ہوا جو کہ گزشتہ 13 ماہ میں اسکی بلند ترین سطح ہے۔ مارکیٹ نئے 1 ارب کے ساتھ شیئر والیوم کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ جبکہ آج ایشیائی مارکیٹس میں بھی یہی صورتحال نظر آ رہی ہے۔
دیگر امریکی مارکیٹس کا جائزہ لیں تو S&P500 بھی ایک سال کی بلند ترین سطح 4472 پر ہے۔ آج اسکی ٹریڈنگ رینج 4463 سے 4488 کے درمیان رہی۔
نیویارک اسٹاک ایکسچینج (NYSE) میں بھی بھرپور اختتامی سیشن دکھائی دیا اور کاروباری دن کا اختتام 113 پوائنٹس کی تیزی سے 16 ہزار کا نفسیاتی لیول عبور کرتے ہوئے 16011 پر ہوا۔
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔