پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ، لیکن یہ سلسلہ رکے گا کہاں؟ ۔؟

انٹربینک میں USDPKR کی قدر پہلی بار 300 سے تجاوز کر گئی۔ اوپن مارکیٹ ریٹ 314

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر آ گیا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اسکی قدر میں 27 روپے کا اضافہ ہوا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں گراوٹ کہاں جا کر رکے گی۔ ؟

اگرچہ اس سے قبل اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ معاہدے سے قبل تین سو کا ہندسہ عبور کر گیا تھا۔ تاہم انٹربینک میں پہلی بار یہ اس سطح پر دیکھا گیا ہے۔ آج مارکیٹ کے اختتام پر USDPKR کی قدر 301 پر بند ہوئی۔ دوسری طرف اوپن مارکیٹ کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں جہاں 1 امریکی ڈالر 315 روپے کی سطح عبور کر گیا۔

پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر

اس حوالے سے Urdumarkets.com سے خصوصی طور پر بات چیت کرتے ہوئے AKD Securities کے ٹریڈ اینالسٹ وقار احمد نے کہا کہ اگرچہ IMF کے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے۔ اور دوست ممالک سے بھی خاطر خواہ امداد موصول ہوئی ہے۔ لیکن سیاسی عدم استحکام اور منتخب حکومت نہ ہونے کے باعث ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ نہیں روکی جا سکی۔

یہی وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ریٹ میں دوبارہ 15 روپے کا فرق آ چکا ہے۔ جو مالیاتی نظام کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ ایسے حالات کا فائدہ حوالہ ہنڈی اور ڈالر کے اسمگلر حاصل کرتے ہیں۔

اس صورتحال پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔؟

وقار احمد کہتے ہیں کہ ملک کے تمام معاشی اعشاریے (Financial Indicators) سیاسی صورتحال کے ساتھ منسلک ہیں۔ عام انتخابات میں جتنی تاخیر کی جائے گی معاشی صورتحال اتنی ہی پیچیدہ ہوتی جائے گی۔

لایور اسٹاک ایکسچینج کی ٹریڈر مہوش حسن کے مطابق اسوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز بلیک مارکیٹ ختم کرنے کے لئے ایک مربوط پالیسی تیار کریں۔ جس پر اتفاق رائے کے بعد سختی سے عمل کیا جائے۔

کیونکہ پاکستانی مالیاتی نظام کو عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اصلاحات کہ ضرورت ہے۔ انہوں نے مانیٹری پالیسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسوقت ہماری شرح سود (Interest Rate) 23 فیصد پر ہے۔ اسکے باوجود بااثر افراد امریکی ڈالر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے غیر ملکی کرنسی کی طلب (Demand) میں کمی نہیں آ رہی۔

متبادل کرنسی کے حوالے سے پالیسی وقت کی اہم ضرورت ۔

نجی بروکریج کمپنی کی ہیڈ آف اسٹریٹیجی کومل منصور کے خیال میں پاکستانی مالیاتی ڈھانچہ ڈالر کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اس عالمی ٹریڈ کیلئے کسی اور کرنسی کے استعمال کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ حالانکہ دنیا بھر میں چینی یوان اور چائینیز یونین تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

مقتدر حلقوں میں گذشتہ 9 سال سے یہ بحث چل رہی ہے جو کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی ٹریڈ میں یوان ہمارے لئے اس لئے بھی اچھی آہشن ہے کہ جس طرح ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے میکسیکو کیلئے امریکی اوپن مارکیٹ تک رسائی آسان ہے ویسے ہم بھی چینی مارکیٹس تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ کومل کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ڈالر کی طلب میں کمی آئی پاکستانی روپیہ خودبخود مضبوط ہو جائے گا۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button