نیوزی لینڈ ڈالر کی قدر میں کمی کی ٹیکنیکی وجوہات

کل ریزرو بینک کی طرف سے شرح سود میں اضافے کے باوجود کیوی ڈالر مسلسل نیچے کی طرف جا رہا ہے جبکہ گراف کے مطابق ٹریڈ کا کوئی واضح تناسب بھی نہیں بن رہا اور کینڈلز مسخ شدہ نظر آ رہی ہیں۔ امریکی ڈالر کے ساتھ پیئر میں ایک ہفتہ اوپر کی قیمتوں میں گزارنے کے بعد یوں تو ٹیکنیکلی کیویز کرنسی پر دوسرے کوارٹر کی معاشی رپورٹ میں چینی رسد کے عدم توازن اور افراط زر دونوں ہی کے اثرات نمایاں نظر آ رہے ہیں لیکن 0.6500 پر ٹیکنیکلی   بلش پریشر فروخت کے رجحان میں تبدیل ہو رہا ہے یعنی سرمایہ کار اپنا ٹرینڈ یہاں سے اوپر کی طرف تبدیل کر کے منافع حاصل کرنے کے لئے فروخت شروع کر دیتے ہیں اور یہ رجحان امریکی ڈالر کے مقابلے میں 0.6250 کی سطح تک قائم ہے جس سے نیچے بیئرش پریشر نظر آ رہا ہے۔ اسکی دوسری بڑی وجہ دسمبر 2022 ء اور مارچ 2023 ء کی شرح سود کے تخمینے میں تبدیلی ہے۔ یعنی ریزرو بینک کی طرف سے نئے سال کے آغاز میں افراط زر پر قابو پانے کے دعووں کے باوجود شرح سود  کے ابتدائی تخمینے 3.95 کی سطح سے 4.10 فیصد کی نئی پیشگوئی افراط زر کے رسک فیکٹر کو ظاہر کر رہی ہے۔ یقینی طور پر افراط زر کا رسک فیکٹر نیوزی لینڈ ڈالر پر دباؤ ڈال کر بلش مومینٹم کو کمزور کر رہا ہے۔ اس لئے اسوقت 0.6312  کی سطح پر تیز فروخت 100 دن کی ایوریج یعنی بلیو لائن سے بار بار انڈیکس کو نیچے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ لیکن اگلے ایک سے دو دنوں میں امریکی ریٹیل سیلز اور ستمبر کے پہلے ہفتے کی فیڈرل ریزرو اوپن مارکیٹ کمیٹی کی میٹنگ کیویز پر دباؤ کو کم کر دے گی اور فروخت کا رجحان امریکی ڈالر کی طرف منتقل ہو جائے گا ۔ اسطرح ایوریج ٹریڈ لیول یعنی بلیو لائن سے اوپر سرمایہ کاروں کی طرف سے خریداری کا رجحان شروع ہو جائے گا اور بلش ٹرینڈ نیوزی لینڈ ڈالر کو 0.6500 یا اس سے بھی اوپر کی سطح تک دھکیل سکتا ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button