چینی معیشت کی سست روی ، کیا دنیا ایک نئے معاشی بحران کی شکار ہونے جا رہی ہے۔ ؟

موڈیز نے Chinese Economic Growth کے تخمینے میں کمی کر دی

چینی معیشت کی صورتحال اسوقت عالمی مارکیٹس میں ایک نئے رسک فیکٹر کے طور پر سامنے آئی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں افراط زر ایک بڑا مسئلہ ہے۔ وہیں دنیا کی سب سے بڑی پیداواری معیشت میں تفریط زر یعنی Deflation سر درد بنی ہوئی ہے۔ آج موڈیز نے بھی اس سال کے کیلئے Chinese Growth Rate کے تخمینے میں 0.5 فیصد کمی کر دی ہے۔

چینی معیشت کی صورتحال۔

رواں سال کے دوسرے کوارٹر میں عالمی رسد کا توازن بری طرح سے بگڑا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ دنیا کو 60 فیصد سے زائد صنعتی اور تیار شدہ اشیاء فراہم کرنیوالے ملک چین کی معاشی صورتحال ہے۔ چینی انڈسٹری اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہیں۔

گذشتہ 6 ماہ ایشیائی طاقت اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت کیلئے بری خبریں لے کر آئے۔ ملک کو کورونا کے بعد کھولی جانیوالی معیشت کی بحالی کا بڑا چیلنج درپیش ہے۔ بیروزگاری اور غربت حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں اور کئی بڑی چینی کمپنیوں کو ڈیفالٹ کا سامنا ہے۔ اگرچہ بیجنگ انتظامیہ اسکے لئے Fiscal Recovery Plan تیار کر رہی ہے۔ لیکن عالمی ادارے اس 2023ء میں مجموعی شرح نمو کم رہنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے بارے میں امریکہ کو کیا خدشات ہیں۔؟

گذشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کی اقتصادی صورتحال کو ایک ایسے ٹائم بم سے تشبیہ دی جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے اور اسکے اثرات کئی عشروں تک ساری دنیا کو بھگتنے پڑیں گے۔ اس کے جواب میں ژی جن پنگ نے چینی معیشت کو تمام چیلنجز کا سامنا کرنے والی قوت قرار دیا ۔ جو عالمی وباء کے بعد بھرپور فارم میں واپس آنے کی تیاری کر رہی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے سب سے بڑے حریف کو قابو کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنیوالے امریکہ کو کیا تشویش لاحق ہے اور کیا درحقیقت حالات اتنے ہی گھمبیر ہیں جتنا صدر بائیڈن بیان کر رہے ہیں۔؟

عالمی استحکام رسد میں چین کا کردار۔

دنیا بھر کو معاشی امداد ، خام مال اور تیار شدہ سامان فراہم کرنیوالے ملک اگر صرف 25 فیصد سپلائی کم کر دے تو امریکہ سمیت پوری دنیا Recession کی شکار ہو جائے گی۔ کیونکہ 400 ٹریلیئن ڈالرز کی ماہانہ پیداوار دینے والا کوئی اور متبادل کرہ ارض کے نقشے پر موجود نہیں ہے۔ چینی رسد بند یونے سے یورپ اور امریکہ میں اشیاء کی قیمتیں 15 گنا بڑھ جائیں گی اور کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) 200 فیصد سے تجاوز کر سکتا ہے۔

یہ اثرات سپلائی میں محض 25 فیصد کمی بعد سامنے آئیں گے۔ چین کے کسی ایک شعبے کی مکمل بندش عالمی نظام زر کو زمیں بوس کر سکتی ہے۔

یہاں پر واشنگٹن انتظامیہ کی تشویش سمجھ میں آتی ہے۔ تاہم جو بائیڈن کی حقیقی پریشانی یہ ہے کہ یوکرائن جنگ کے بعد آنیوالے معاشی بحران میں چین نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ جیسے 2008ء کی کساد بازاری میں اس نے مشرق وسطی اور یورپ کو اضافی سرمایہ کاری اور فنڈز انجیکٹ کر کے کیا تھا۔

چینی تفریط زر کیا ہے اور یہ کیوں ایک بڑا رسک فیکٹر ہے۔ ؟

تفریط زر ایسی صورتحال کو کہتے ہیں، جب اشیاء کی قیمتیں یعنی کنزیومر پرائس انڈیکس 2 فیصد کے مقررہ ہدف سے بھی کم ہو جائے۔ دنیا نے اس کا سامنا 1940 کے عشرے میں دوسری عالمی جنگ کے دوران کیا تھا اور اسے اثرات 70 کی دہائی تک محسوس کئے جاتے رہے۔

چینی معیشت کی سست روی ، کیا دنیا ایک نئے معاشی بحران کی شکار ہونے جا رہی ہے۔ ؟

یہ اسوقت ہوتا ہے جب مارکیٹ میکانزم گر رہا ہو اور لوگ غربت کے مارے پہلے سے تیار شدہ اشیاء پیداواری لاگت سے بھی نیچے فروخت کرنے لگ جائیں۔ چین کو اس کا سامنا Covid-19 کے باعث عائد کی گئیں خود ساختہ سخت ترین معاشی اور سماجی پابندیوں کے باعث کرنا پڑا ۔ جس کے بعد زیادہ تر کمپنیاں مالیاتی بحران کی شکار ہو گئیں اور پیداواری یونٹس دھڑادھڑ بند ہونا شروع ہو گئے.

۔ اسے کنٹرول کرنے کے لئے ایک بڑے بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہوتی ہے جو صنعتی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرز کو جامع پلان کے تحت مرحلہ وار سپورٹ کرے۔ چینی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ پہلے سے ہی ایسا کر رہی ہے۔

کیا چین کا پراپرٹی سیکٹر ڈوب رہا ہے ، اگر ایسا ہے تو اسکی وجوہات کیا ہیں۔ ؟

ایشیائی ملک کے اقتصادی مسائل کی اصل جڑ اسکا ریئل اسٹیٹ اور پراپرٹی سیکٹر ہے۔ جو کہ کچھ عرصہ پہلے تک اسکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا اور مجموعی قومی آمدنی کا 35 فیصد اسی سے حاصل کیا جاتا تھا۔

معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ دو عشرے پہلے تک اس میں زبردست تیزی رہی۔ اور ملک میں کسی حد تک Privatization کو پروان چڑھایا گیا۔ لیکن اس کے بعد کورونا کی عالمی وباء شروع ہوئی اور سب کچھ زمیں بوس ہو گیا۔ صرف چین ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر سکڑنا شروع ہو گیا۔ لیکن دیگر طاقتور ممالک کے برعکس بیجنگ انتظامیہ پابندیوں کو سخت کرتی چلی گئی اور Zero Covid Policy کا سختی سے نفاذ کیا گیا۔ جس سے یہ شعبہ دوبارہ سنبھل نہیں پایا۔

چینی حکومت دراصل 2008 کے بحران کے نتائج سے خوفزدہ ہے جب امریکہ میں ڈویلپرز کیلئے قرض کی حد کم کر دی گئی تھی اور اس سے کمپنیاں اربوں ڈالرز کی مقروض ہو کر ڈیفالٹ کر گئی تھیں۔ ایسے میں چین کی مدد سے امریکی ہاؤسنگ انڈسٹری صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب تو ہو گئی ۔ لیکن خود چین کو اسکے بتائج تین سال تک بھگتنا پڑے۔

کیا چینی معیشت کی بحالی کا عمل ممکن ہو پائے گا۔ ؟

مثبت پہلو یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے قرض میں پھنسی کمپنیوں کو اس سے گرداب سے نکالنے کیلئے منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ چینی ماڈل میں موجود نقائص بحالی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ عوام کو غربت سے نکالنے اور پیسے کا ضیاع روکنے کیلئے لچکدار معیشت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فائنانس سیکٹر پر سخت حکومتی گرفت صورتحال پیچیدہ کر رہی ہے۔

2018ء میں 9 فیصد کے گروتھ ریٹ سے محض پانچ سالوں میں 4 فیصد پر آ جانا نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت کو اسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس سے ماضی میں چین نے پوری دنیا کو بحران سے باہر نکالا تھا۔

چینی ترقی کا ماڈل بلاشبہ حیران کن ہے Artificial Intelligence سے لے کر خلاء تک مقررہ اہداف کا حصول تمام طاقتور منالک کیلئے ایک بڑا قابل تقلید عمل ہے لیکن ژی جن پنگ تفریط زر کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں اسکا انتظار دنیا بھر کی حکومتیں اور معاشی ادارے کر رہے ہیں۔ کیونکہ بحر ہند سے لے کر بحرالکاہل تک پھیلے ہوئے اس ملک کی معیشت کے بغیر بین الاقوامی مارکیٹ کا تصور بھی محال ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button