کیا فلسطین اسرائیل جنگ ایک نئے عالمی معاشی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ؟
امریکی و اتحادی ممالک کی جھگڑے میں شیمولیت دنیا کو نہ ختم ہونے والے Recession میں دھکیل سکتی ہے۔
فلسطین اسرائیل جنگ کے بعد عالمی مارکیٹس میں سرمایہ کاروں کا انتہائی محتاط انداز نظر آ رہا ہے۔ یوں تو یہ معاملہ 8 عشرے پرانا ہے اور اس کی تاریخ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی یورپ سے جبری بے دخلی اور پھر عربوں کے دل فلسطین میں آباد کاری سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم تاریخی اعتبار سے دنیا کے تینوں ابراہیمی مذاہب اس مقدس سرزمین کی ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔
فلسطین کا انسانی المیہ عالمی معیشت کو یوکرائن جنگ سے بھی بڑے بحران میں مبتلا کر سکتا ہے۔ لیکن کیسے۔ ؟
دنیا ابھی یوکرائن پر ہونیوالے روسی حملے کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی اور کساد بازاری (Recession) عالمی معیشت پر پنجے گاڑتی ہوئی مالیاتی نظام کو کھوکھلا کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ اختتام ہفتہ پر غزہ اور مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی کاروائیوں کے جواب میں فلسطینی تنظیم حماس کی طرف سے 7 ہزار راکٹس لانچ کئے جانے سے ایک نئی جنگ کا آغاز ہو گیا۔
واضح رہے کہ فلسطین کا المیہ ایک ایسا رستا ہوا زخم ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر جھکڑے ہوئے ہے۔ مظلوم اور نہتے عربوں ہر دنیا کی سب سے بڑی اور جدید ترین اسلحے سے لیس صیہونی افواج کی طرف سے تمام تر اخلاقی اور انسانی قدروں کی دھجیاں بکھیرتے مناظر انتقام کی لہر پیدا کرتے ہیں۔
اس معاملے پر اقوام عالم کی ڈھٹائی اور بے حسی سے اسلامی دنیا اور مغرب سمندر کے ان دو کناروں کی طرح بن چکے ہیں جو کہیں مل نہیں سکتے۔ عرب دنیا تیل کی دولت سے مالا مال خطہ ہے۔ سعودی عرب کی زیر سرپرستی OPEC ممالک تیل کی عالمی رسد کا نصف مہیا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں مصر کی سوئز کینال اور یورپی کی دہلیز پر دو براعظموں پر محیط ترکی کی آبنائے باسفورس عالمی تجارت کا 80 فیصد کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر یہ دونوں راستے بند کر دیئے جائیں تو یورپی ممالک چند ہفتوں میں دیوالیہ ہو جائیں گے۔ یوکرین اور روس عالمی رسد کا صرف 20 فیصد کنٹرول کرتے ہیں اور اسکے اثرات سے ابھی تک عالمی معیشت بھر نہیں آ سکی . لیکن عرب ممالک اور دنیا کی ترھویں بڑی معیشت ترکی جو کہ اس معاملے میں اہم فریق کے طور پر سامنے آیا ہے مل ک طاقتور ممالک کو دیوالیہ کر سکتا ہے.
تشدد کی حالیہ لہر کیسے شروع ہوئی۔؟
ہفتے کے روز حماس کی طرف سے اسرائیل پر راکٹ داغے جانے کے بعد اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملوں اور مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصی میں دوران نماز کریک ڈاؤن کے بعد تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ اسرائیلی فضائیہ کی کاروائیوں میں 350 فلسطینی جان بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ اسرائیلی حدود میں فلسطینیوں کی طرف سے حملوں میں اب تک 7 سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے جنگجو راکٹ حملے کے بعد پھیلنے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بحری اور زمینی راستوں سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے اور اہم ترین بندر گاہ حیفہ سمیت کی اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا . اسرائیلی حکومت کے کسی دفاعی کوشش سے پہلے اسکی کی چیک پوسٹس تباہ اور سینکڑوں فوجی اہلکار قیدی بنائے جا چکے تھے .
مغربی میڈیا کے مطابق یہ اسرائیل پر اسی انداز کا حملہ ہے جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کےدوران پرل ہاربر پر جاپان کی طرف سے کیا گیا تھا . اور اسکا انجام ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کی صورت میں برامد ہوئے تھے .
عالمی طاقتوں کا ردعمل . معاملات کس رخ پر جا رہے ہیں.؟
گذشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ اسے دفاع کر بھرپور حق ہے اور امریکہ سمیت تمام اتحادی ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ پریس ریلیز میں اسرائیلی موقف کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ۔ دوسری طرف نہتے فلسطینیوں کے حمائت میں سعودی عرب ، ایران اور ترکی کھل کر سامنے آئے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے انقرہ میں تقریر کرتے ہوئے غزہ پر بمباری بند کرنے کا مطالبہ کیا کہ اسرائیل جغرافیائی اور اخلاقی حدود عبور کرنے سے باز رہے۔ انہوں کے نام لئے بغیر امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دفاع کا حق محض اسرائیل کو ہی نہیں بلکہ فسطینیوں کو بھی حاصل ہے اور انکی جدوجہد قربانیوں کی ایک لازوال داستان ہے۔
ترک صدر کے علاوہ سعودی شاہی خاندان اور ایران کے روحانی راہنما سید علی الخامنائی کی طرف سے بھی فلسطینوں کی غیر مشروط اخلاقی امداد کا اعلان کیا گیا ہے . ادھر چین اور روس نے ابتدائی طور پر محتاط رد عمل کا مظاھرہ کرتے ہوئے فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے .
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران یہ دونوں ممالک ایران ، ترکی اور عرب دنیا کے اہم اتحادی بن کر سامنے آئے ہیں . اگر انکا موقف اس معاملے میں بھی یہی رہا تو عالمی سطح پر بڑے بحران کا اندیشہ ہے . جس کے نہ صرف معاشرتی بلکہ معاشی پہلو بھی انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں .
عالمی مارکیٹس میں کیا صورتحال ہے.؟
عالمی مارکیٹس کے ٹریڈرز مشرق وسطی میں ایک نئی جنگ اور یوکرین جنگ کے بعد عالمی معاشی بحران کے پیش نظر سائیڈ لائن ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے سیشنز میں ٹریڈنگ والیوم معمول سے کم ہے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک دنیا میں تیل کی پیداوار کا نصف حصّہ مہیا کرتے ہیں . اگر یہ جھگڑا طوالت اختیار کر گیا . تو عرب ممالک 1973 کی طرح اسے ہتھیار کے طور پر بھی استمعال کر سکتے ہیں . مارکیٹس میں یہ رسک فیکٹر بھی اثاثوں کی کی ڈیمانڈ کم کرنے کا سبب بن رہا ہے .
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔