فائنانس ایکٹ کا نفاذ پاکستانی صنعتوں پر کیا اثرات مرتب کرے گا ؟

سپر ٹیکس سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بن سکتا ہے۔

فائنانس ایکٹ 2023-24 کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں مہنگائی کے ایک نئے سیلاب کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ بجٹ تجاویز میں IMF کے مطالبے پر کئی ترامیم کی گئی ہیں اور 415 ارب روپے کے نئے ٹیکسز کے علاوہ بڑی صنعتوں پر وہ Super Tax بھی لاگو کر دیا گیا جس کی بازگشت حالیہ عرصے میں کئی بار ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی سنائی دیتی رہی ہے اور اس حوالے سے کئی اہم عدالتی فیصلے بھی کئے گئے۔

فائنانس ایکٹ میں کون سی ترامیم کی گئی ہیں؟

دو روز قبل عالمی مالیاتی ادارے IMF کے ساتھ 9 ماہ کی مدت کیلئے 3 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج پر مشتمل اسٹاف لیول معاہدہ سائن ہونے کے بعد وزارت خزانہ نے Budget Deficit کم کرنے اور ریونیو میں اضافے کیلئے Income Tax Slabs میں تبدیلی سمیت کئی ترامیم کی ہیں۔ جس نے تنخواہ دار طبقے سے لے کر صنعتکاروں تک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان میں زرمبادلہ ذخائر 1998ء کے بعد تاریخ کی کم ترین سطح پر آ گئے اور نہ صرف جنوبی ایشیائی ملک کے ڈیفالٹ کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک نے بھی اپنی معاشی امداد کو International Monetary Fund کے گرین سگنل سے مشروط کر دیا تھا۔ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری کا انخلاء ریکارڈ کیا گیا۔

فائنانس ایکٹ 2023-24 کا نفاذ کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پاکستان میں مہنگائی کے ایک نئے سیلاب کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے

ٹیلی نار، Bayer ، پاک سوزوکی اور Shell Global سمیت درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنے یونٹس اور دفاتر بند کرنے کے اعلانات بھی کئے۔ ان میں سے بیشتر کمپنیوں نے اپنے کاروبار بنگلہ دیش منتقل کر دیئے ہیں۔

آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ National Investment Plan کرنیوالی حکومت جو کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا چاہتی ہے ایسے سخت فیصلے کیوں کر رہی ہے جن سے ملک میں کارپوریٹ سیکٹر عدم تحفظ کا شکار ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے ہم نظر ڈالتے ہیں فائنانس ایکٹ میں کئی گئی ترامیم پر اس کے بعد ان کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

عالمی مالیاتی فنڈ کے مطالبے پر 2 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر 4 فیصد مزید ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل اس پر 2 فیصد محصولات وصول کئے جاتے تھے۔ اس سے اوپر Income Tax Slabs کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور 5 سے 15 فیصد تک نئے ٹیکسز عائد کئے گئے ہیں۔ بچوں کے مصنوعی دودھ پر Sales Tax کی شرح 5 سے 6 فیصد کر دی گئی ہے۔

قابل ٹیکس اشیاء کی نان رجسٹرڈ اور نان فائلرز کو فروخت پر بھی براہ راست ٹیکس کی سطح 4 فیصد کر دی گئی ہے۔ زرعی شعبے کیلئے یوریا کھاد پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ نان فائلرز کیلئے 50 ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزیکشن پر 0.6 فیصد ٹیکس کی کٹوتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

فائنانس ایکٹ نافذ ہوتے ہی پیٹرولیم کمپنیوں پر 55 روپے لیوی کے علاوہ اضافی سپر ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ٹیکس کے لئے کم از کم آمدنی کی حد کو بڑھا کر 30 سے 50 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ تاہم اس کی لپیٹ میں کئی نئے شعبے آئے ہیں جن میں پیٹرولیئم، گیس، ادویہ سازی، شوگر، ٹیکسٹائل، فرٹیلائزر، لوہا، آئل اینڈ مارکیٹنگ، ریفائنریز، کولڈ ڈرنکس اینڈ بیوریجز، سیمنٹ کیمیکلز اور ٹوبیکو مصنوعات شامل ہیں۔

مختلف شعبوں کو کتنا سپر ٹیکس ادا ادا کرنا ہو گا ؟

اوپر بیان کئے گئے تمام سیکٹرز کو اپنی مجموعی آمدنی پر 10 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ جبکہ 40 سے 50 کروڑ روپے سالانہ کمانے والی کمپنیوں پر 8 فیصد، 35 سے 40 کروڑ پر 6 فیصد اور 30 کروڑ ریونیو حاصل کرنے والی صنعتوں پر 4 فیصد سپر ٹیکس نافذالعمل ہو گیا ہے۔ اس سے کم آمدنی والے اداروں کو 2 سے 3 فیصد اضافی سپر ٹیکس دینا ہو گا۔ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر بھی 2 فیصد ٹیکس لاگو ہو گیا ہے۔

 پیداواری شعبے کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ؟

پاکستان کا صنعتی شعبے پہلے سے انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری جس سے 70 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے بند ہو چکی ہے۔ Blink Capital Management کے چیف ایگزیکٹو حسن مقصود کہتے ہیں کہ ملک کو سالانہ 4 ارب ڈالرز کما کر دینے والے اس شعبے پر ٹیکسز کی بھرمار اور درآمدات پر سخت پابندیوں نے انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔

انکے مطابق ملکی معیشت کی بیک بون سمجھا جانیوالا یہ سیکٹر خام مال بند ہونے کے باعث ہمسایہ ممالک میں شفٹ ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور بنگلہ دیش کو ہوا ہے۔ BCM کے سربراہ کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کو ملنے والے Export Orders اب ان ممالک کو منتقل ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ARY NEWS سے منسلک اور پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی آصف قریشی کا کہنا ہے کہ اگرچہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کیلئے ان ٹیکسز کا نفاذ ضروری تھا کیونکہ یہ IMF کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے لیکن یہ ملک سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے انخلاء کا سبب بنے گا کیونکہ پاکستان بین الاقوامی مارکیٹ میں سخت چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔

ان کے خیال میں بھارت اور بنگلہ دیش پیداواری لاگت کم ہونے کے باعث پہلے ہی ہم سے کم ریٹس آفر کرتے ہیں اور اب جبکہ سپر ٹیکسز کے بعد پاکستانی برآمدی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا تو Export Volume میں بھی نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔

دستبرداری

انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button