Gold Price میں 2075 کے قریب تیزی، 2023 میں مجموعی طور پر 14 فیصد گینز
Bright Metal is getting advantage of defensive US Dollar amid Red Sea Seizure
Gold Price میں 2075 کے قریب تیزی ریکارڈ کی جا رہی ہے رواں سال کے آخری اور محدود سیشنز کے دوران سنہری دھات 21 سو ڈالرز فی اونس کی نفسیاتی سطح پر نظریں جمائے ہوئے ہے . گزشتہ دو روز سے جاری اس Bullish Rally نے 2023 کے آخری اور محدود سیشنز میں US Dollar کی کمزوری سے بھرپور ایڈوانٹیج حاصل کیا. جو کہ Middle East میں Red Sea Seizure کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے .
Gold Price میں 2023 کے دوران 14 فیصد اضافہ ، لیکن وجوہات کیا رہیں.؟
گذرتے ہوئے 2023 کے آخری معاشی لمحات میں سنہری دھات ایک مرتبہ پھر تاریخ کی بلند ترین 21 سو ڈالرز فی اونس کے قریب ٹریڈ کر رہا ہے . تاہم Geopolitical conflicts اور Global Financial Crisis کے زیر اثر یہ سال Precious Metal کے لئے اپنے اندر اتار چڑھاؤ سموئے ہوئے تھا .
بلاشبہ اس دوران US Federal Reserve اور European Central Bank سمیت طاقتور ترین ممالک نے سخت Monetary Policy اختیار کئے رکھی . جس سے Commodities کے لئے طلب کے مسائل پیدا ہوئے. تاہم اس کے باوجود Gold کی چمک کم نہیں ہوئی اور یہ سال کا Largest Trading Asset رہا.
World Gold Council کے جاری کردہ اعداد و شمار میں اس سال 2075 ارب ڈالرز سے زاید مالیت کی سنہری دھات Global Markets میں ٹریڈ کی گئی . جن میں سے نصف صرف Chinese Markets میں خریدی گئی .
China کی طرف سے Foreign Exchange Reserves کی Gold میں منتقلی اور Brics Common Currency کی کوششوں سے بھی اس کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا.
Geopolitical Conflicts اور Inflation کا عفریت اور Banking Crisis
2023 جس کے محض چند ٹریڈنگ سیشنز باقی رہ گئے ہیں. عالمی سرمایہ کاروں کے لئے ایک تناؤ سے بھرپور سال رہا. کیونکہ اسے وراثت میں 2022 میں Russia کی جانب سے Ukraine پر ہونے والے حملے کے سبب پیدا ہونے والا Global Financial Crisis ملا تاہم یہ ایسے وقت میں ختم ہو رہا ہے جبکہ Middle East میں Gaza پر Israel کی طرف سے مسلط کی جانیوالی جنگ کی تباہ کاروں سے عالمی معیشت Recession کی ایک نئی لہر کی خوف کی شکار ہے .
خطے میں جنگ کے وسعت اختیار کر جانے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے. اور Yemen کے Houthi Rebels کی جانب سے تجارتی بحری جہازوں پر حملوں میں تیزی آ رہی ہے . جبکہ Red Sea میں دنیا کی اہم ترین بحری گزرگاہ Bab Almandab Straight بند ہوئے لگ بھگ دو ہفتے ہو چکے ہیں ، جس سے Asia ، Africa اور Europe کے درمیان Logistic Route اندازے کے مطابق 16500 ناٹیکل میل طویل ہو گیا ہے اور عالمی سطح پر قیمتوں کے دو سے تین گنا اضافے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے . جبکہ سفر کی مدت میں 10 سے پندرہ دنوں کا اضافہ ہوا ہے .
اگرچہ United States اور اسکے اتحادی ممالک بحیرہ احمر میں Maritime Security بڑھا رہے ہیں تاہم اسکے باوجود حالات معمول پر نہیں لائے جا سکے . اس تنازعے کے 2024 میں بھی عالمی معاشی افق پر بڑی تبدیلیوں کا سبب بنانے کا اندیشہ ہے .
سال کے پہلے کوارٹر میں امریکی ریاست کیلی فورنیا سے شروع ہونے والے Banking Crisis کے نتیجے میں عالمی نظام زر کے بکھرنے کا خوف پیدا ہو گیا اور سرمایہ کاروں نے Stocks اور Commodities میں موجود رسک فیکٹر کو بھانپتے ہوئے محتاط انداز اختیار کر لیا .
Recession ، قابو میں نہ آنیوالا Consumer Price Index اور High Interest Rates.
رواں سال دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو دریش Economic Challenges میں Recession کی بدترین لہر سرفہرست رہی. جس کی وجہ سے پہلے دونوں کوارٹرز کے دوران Stocks کے سرمایہ کاروں نے انتہائی محتاط انداز اختیار کئے رکھا. اس کے منفی اثرات دنیا بھر کی Stock Markets کی طرح Dow Jones پر بھی مرتب ہوئے. جس کا Composite Index کم ترین سطح 27 ہزار سے بھی نیچے آ گیا .
علاوہ ازیں اس تمام عرصے کے دوران دنیا بھر میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں یعنی Consumer Price Index کئی عشروں کی بلند ترین سطح پر آ گیا ، بالخصوص Turkey ، Europe ، United Kingdom اور United States میں یہ اپریل تک بے قابو ہوتی ہوئی دکھائی دی . جس کی وجہ سے Federal Reserve اور European Central Bank سمیت اہم Central Banks نے سخت Monetary Policy اختیار کئے رکھی اور Interest Rates میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھا .
یہی وجہ ہے کہ Growth Rates گزشتہ 10 میں سب سے کم رہے ، اس دوران US GDP میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہوئی جس سے تیسرے کوارٹر میں Gold کی طلب میں کمی واقع ہوئی .
دستبرداری
انتباہ۔۔۔۔ اردو مارکیٹس کی ویب سائٹ پر دستیاب آراء اور مشورے، چاہے وہ آرٹیکل ہوں یا پھر تجزیئے ، انفرادی مصنفین کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ Urdu Markets کی نمائندگی کریں۔